نیما یوشیج | |
---|---|
![]() | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 12 نومبر 1895ء [1][2] ![]() یوش، مازندران ![]() |
وفات | 4 جنوری 1960ء (65 سال) ![]() شمیران ![]() |
وجہ وفات | نمونیا ![]() |
طرز وفات | طبعی موت ![]() |
شہریت | ![]() ![]() ![]() |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، معلم ، مصنف ، ادبی نقاد ![]() |
پیشہ ورانہ زبان | فارسی ، طبری زبان ![]() |
دستخط | |
![]() | |
![]() | |
درستی - ترمیم ![]() |
علی اسفند یاری المعروف نیما یوشیج (11 نومبر 1897ء – 3 جنوری 1960ء) ایرانی معاصر فارسی شاعر تھے۔ وہ اپنی شاعری کے سبب مشہور ہیں جسے "شعر نو" اور "شعر نیمائی" کہا جاتا ہے۔ انھیں جدید فارسی شاعری کا موجد کہا جاتا ہے۔
ایران میں صوبہ مازندران کے شہرستان نور کے ایک دور افتادہ دیہات یوش میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ابراہیم نوری اعظام السطنہ جرات مند آزادی خواہوں میں شمار ہوتے تھے۔
نیما کا بچپن آرام و آسائش میں بسر ہوا۔ ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی۔ بارہ سال کی عمر میں تہران آئے۔ "حیات جاوید" اور "سَنت لوئی" نام کے اسکولوں میں پڑھا۔ فارسی کے علاوہ فرانسیسی اور عربی سیکھی۔ ان کے اساتذہ میں نظام وفاء کا نام اہمیت رکھتا ہے جو ادب کے استاد اور شاعری میں نیما کے مشوق و راہنما تھے۔ علامہ محمد صالح حائری مازندرانی سے فلسفہ، منطق اور فقہ کی تعلیم بھی حاصل کی۔ نیما کے بقول ان پر فارسی کے مشہور شعرا نظامی گنجوی اور حافظ شیرازی کے علاوہ رومی اور یورپ کے بعض شعرا و ادبا نے گہرا اثر چھوڑا ہے۔
1916ء سے 1921ء کے عرصے میں وہ فارسی شاعری کے افق پر نمودار ہوئے ہیں۔ ابتدا میں قدیم طرز پر شعر کہتے ہیں، لیکن یورپ اور خاص طور پر فرانسیسی ادب سے واقفیت نے ان پر آگہی اور فکر و بینش کے نئے دروازے کھول دیے۔ وہ اپنے کلام سے فارسی شاعری کو نئی سمتوں اور جدید افکار و خیالات سے حقیقی طور پر روشناس کراتے ہیں۔[3] موضوع شعر اور شعر کی ظاہری شکل و صورت کے سلسلے میں نئے تجربے کرتے ہیں۔ 1923ء میں نیما اپنی جدید نظم "افسانہ" شائع کرتے ہیں جو فرانس کے رومانٹک شعرا کے اسلوب پر مبنی تھی۔ یہ ایران میں طرز بیان اور فنی ادراک میں ایک انقلاب کی نشان دہی کرتی ہے۔ مکالمے کی صورت میں یہ نظم پر شور عاشقانہ خیالات پر مشتمل اور حقیقت پسندانہ آہنگ میں کہی گئی ہے۔ اس کی خوبصورت، چست اور نئی تراکیب، پرکشش اسلوب، فکر وخیال کی سادگی، تعبیرات کی زیبائی اور مکمل طور پر مناسب وزن نے نیما کو جدید فارسی شاعری میں سب سے بلند مقام پر فائز کر دیا۔ اس نے بعد نیما نے فارسی شاعری کے قواعد و ضوابط میں ترمیم کی۔ اس ضمن میں انھوں نے دو بنیادی تجربے کیے۔ شعر کی فرسودہ اور محدود شکل و صورت میں تبدیلی کو جائز قرار دیا اور دوسرا یہ کہ شاعری کو مصنوعی قافیے کی قید و بند سے آزاد کرایا، لیکن شاعری کا جدید محل قدیم بنیادوں ہی پر تعمیر کرنے کی وکالت کی۔ نیما کے طریق کار کی مخالفت بھی ہوئی اور اس کے جواب میں نیما کی تحریروں نے ان کے اسلوب شاعری کی نہ صرف وضاحت کی بلکہ جدید فارسی شاعری کے قواعد و ضوابط بھی مرتب کر دیے اور اسے مستحکم بنیادوں پر قائم کر دیا۔ نیما اور ان کی شاعری پر ایران میں بہت سی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ اسی طرح ان کے کلام کے متعدد انتخابات بھی منظر عام پر آچکے ہیں۔
ان کی زندگی میں شائع ہونے والی کتب
وفات کے بعد شائع ہونے والی کتب
تعریف و تبصره و یادداشتهای دیگر. تهران: *امیرکبیر. 1348.
دنیای شجاع نو. به کوشش سیروس نیرو. تهران: فرخنگار. 1382. شابک 964-94006-7-2
صوبہ تہران کے شہر شمیران میں 4 جنوری 1960ء کو نمونیا کے سبب انتقال ہوا اور آبائی گاؤں یُوش میں تدفین ہوئی۔[4]