ہندو قانون شادی 1955ء

ہندو قانون شادی 1955ء بھارتی پارلیمان کی جانب سے منظور شدہ ایک قانون ہے جسے 1955ء میں ہندو کوڈ بل کے تحت منظور کیا گیا تھا۔ اس دوران میں تین اہم قوانین بنے تھے: ہندو قانون وراثت (1956ء)، ہندو قانون کم سنی و سرپرستی (1956ء) اور ہندو قانون تبنیت و پرورش (1956ء)۔

ہندو قانون شادی 1955ء
An Act to amend and codify the law relating to marriage
سمنAct No. 25 of 1955
نفاذ بذریعہبھارت کی پارلیمان
تاریخ نفاذ18 مئی 1955
تاریخ آغاز18 مئی 1955
صورت حال: نامعلوم

مقصد

ہندو ضابطے کی تجویز کے طور پر ہندو قانون شادی کی قانون سازی بھارتی پارلیمان کی جانب سے 1955ء میں کی گئی۔ اس قانون سازی کا مقصد ہندوؤں کے بیچ شادی کے قانون کی ترمیم اور ہندوؤں اور دیگر لوگوں کی شادیوں کے قوانین کی باضابطگی تھا۔ شاسترک قانون کی ترمیم اور باضابطگی کے علاوہ اس قانون کے ذریعے علیحدگی اور طلاق کا تعارف کیا گیا جو پہلے شاسترک قانون میں عدم موجود تھے۔ یہ قانون ہندوؤں کے بیچ یکسانی لایا۔ بھارت میں بحیثیت مجموعی مذہب پر مبنی عائلی قوانین ہیں جو مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے لیے الگ الگ بنائے گئے ہیں۔

نفاذ

ہندو قانون شادی 1955ء کی دفعہ 2 [1] کے مطابق:

-یہ قانون ہر اس شخص پر نافذ ہو گا جو مذہبًا کسی بھی شکل یا ہیئت میں ہندو ہو، جس میں ویراشیوا (Virashaiva)، لنگایت ٰ(Lingayat) یا برہمو (Brahmo)، پرارتھا (Prarthana) یا آریہ سماج کے پیروکار شامل ہیں۔

-ہر وہ شخص جو بدھ مت کا پیروکار، جین یا مذہبًا سکھ ہو۔

-ہر وہ شخص جو ان علاقوں میں رہتا ہو جہاں یہ قانون نافذ ہوتا ہے اور وہ مسلمان، مسیحی، پارسی یا یہودی نہ ہو، جب تک کہ یہ ثابت نہ ہو جائے کہ ایسا شخص ہندو قانون کے تحت فیصلہ کیا نہیں جاتا ہو یا کسی رسم و رواج یا عمل درآمد سے ان معاملوں سے متصادم ہو جو ان معاملوں پر محیط ہو جو کافی ہوتے اگر یہ قانون بنایا نہ جاتا۔

یہ دفعہ وضاحت کرتا ہے کہ یہ قانون ہندو کسی بھی شکل میں یا وسیع المعانی اساس پر ہندو یعنی بدھمتیوں، جینیوں، سکھوں اور درحقیقت ملک میں رہنے والے ہر شخص پر جو مسلمان، مسیحی، پارسی یا یہودی نہ ہو، جب تک کہ یہ ثابت نہ ہو کہ ایسے اشخاص اس قانون کے تحت نہیں آتے یا اس کے عمل کے دائرے کا حصہ نہ ہوں۔ لہٰذا یہ قانون بھارت کے باہر مقیم ہندو پر تبھی نافذ ہو گا اگر وہ ہندو بھارت کے علاقے میں مقیم ہو۔[1]

اس قانون کو قدامت پسند سمجھا گیا کیونکہ یہ ہر اس شخص پر نافذ ہے جو مذہبًا اور مختلف شکلوں میں ہندو ہو، مگر پھر بھی یہ دیگر مذاہب کو اس قانون کے دائرے میں لاتا ہے (جینی، بدھمتی اور سکھ) جیسا کہ بھارت کے دستور کی دفعہ 44 میں وضاحت کی گئی ہے۔[2] یہ قانون ہر اس شخص پر نافذ ہے جو عمل در آمد کے علاقے میں دائمی طور پر مقیم ہے۔ یہ قانون مسلمانوں، یہودیوں، مسیحیوں اور پارسیوں پر مذہبًا نافذ نہیں ہے۔ تاہم آنند کرج قانون شادی (Anand Karj marriage act) کے بننے کے بعد سکھوں کے پاس اپنا الگ عائلی قانون موجود ہے۔[3]

شادی کے بارے میں ہندو تصور

ہندو مت کے مطابق شادی ایک مقدس رشتہ ہے۔[4] کچھ ہندو شادی کے نظاموں میں ریاست کا کوئی عمل دخل نہیں ہے کیونکہ شادی سماجی دائرے کے تحت ایک نجی معاملہ رہا ہے۔[5] روایتی بندھن کے حوالے سے بلاشبہ ہندو زندگی کے تغیر کا ایک اہم نقطہ رہا ہے اور اس میں سب سے اہم ہندو "سنسکار" (روایات) رہے ہیں۔.[5]

اسی وجہ سے مذہبی حلقوں کی جانب سے شادی، وراثت اور گود لینے پر قانون سازی کی مخالفت کی گئی تھی۔ سب سے زیادہ مخالفت طلاق کو شامل کرنے پر تھی، جو ہندو دھرم کی عملاً ضد لگ رہی تھی۔ اس بات کی بھی مزاحمت کی گئی کہ لڑکوں اور لڑکیاں کو مساوی وراثت دی جائے، قطع نظر یہ کہ لڑکی شادی شدہ ہو یا کنواری ہو۔[6] یہ ہندو نقطہ نظر کے خلاف تھا جس کی رو سے شادی شدہ لڑکیاں شوہر کے خاندان کا حصہ تھی، نہ کہ اپنے باپ کے خاندان کا حصہ۔

کچھ لوگوں نے یہ دلیل پیش کی کہ ہندو شادی قانون سازی کا حصہ نہیں بن سکتی ہے۔ ڈیریٹ (Derrett) نے اپنی بعد کی تحریروں میں پیشن گوئی کی کہ جدیدکاری کے کچھ ثبوت کے باوجود معتد بہ نقطہ نظر ہندو سماج کا قابلِ دید مستقبل میں یہی رہے گا کہ شادی سماجی فریضے کی ایک شکل ہے۔..[5]

شرائط

ہندو قانون شادی 1955ء کی دفعہ 5 کی رو سے :

"دو ہندوؤں کے بیچ شادی تسلیم کی جا سکتی ہے اگر حسب ذیل شرائط کی تکمیل ہو:-

  1. فریقین میں سے کسی کا شریک حیات شادی کے وقت بہ قید حیات نہ ہو۔
  2. شادی کے وقت فریقین میں سے کوئی-
    1. بارسوخ رضامندی دینے کے لیے دماغ کے فتور کے سبب نااہل نہ ہو؛ یا
    2. حالانکہ بارسوخ انداز میں رضامندی دینے کا اہل ہو مگر دماغ کے فتور کی ایسی کیفیت کا شکار ہو یا اس درجے کا ہو کہ وہ شادی اور بچوں کی پیدائش کے لیے موزوں نہ رہے؛ یا
    3. وہ پاگل پن یا مرگی کے بار بار دوروں کا شکار نہ ہو؛
  3. دولہا اکیس سال کی عمر کا ہو چکا ہو اور دلہن شادی کے وقت اٹھارہ سال کی ہو؛
  4. فریقین ممنوعہ رشتوں کے درجوں میں نہ ہوں جب تک کہ رسم و رواج یا ان دونوں پر رائج طریقے ان دونوں کی شادی کی اجازت دیتے ہیں؛
  5. شادی ان دونوں کے سَپِنْدوں کے درمیان نہ ہو، جب تک کہ رسم و رواج یا ان دونوں کے رائج طریقے ان دونوں کے بیچ شادی کی اجازت نہیں دیتے۔"

اٹھارہ سال سے کم عمر کی لڑکی یا اکیس سال سے کم عمر کے لڑکے کی شادی قابل تنسیخ ہے مگر جواز سے خالی نہیں ہے۔ ایسی شادی قانونًا درست ہو گی اگر "کم سن" کی جانب سے شادی کو غیر قانونی قرار دینے کے اقدامات نہ اٹھائے جائیں۔[7]

سرپرستی

ہندو قانون شادی کی دفعہ 6 شادی کے لیے سرپرست کی تعریف پیش کرتی ہے۔ جب بھی دلہن کی شادی کے لیے سرپرست کی رضامندی اس قانون میں ضروری قرار دی جاتی ہے، حسب ذیل اشخاص رضامندی دینے کا جواز رکھتے ہیں: والد، والدہ، دادا، دادی، سگا بھائی، ماں یا باپ میں سے کسی ایک کو مشترک رکھنے والا بھائی، وغیرہ۔[8] شادی کے لیے سرپرستی کی 1978ء میں تنسیخ ہو گئی تھی جب کم سنی کی شادی انسداد قانون منظور کیا گیا تھا۔ اس ترمیم سے شادی کے لیے درکار اقل ترین عمر بڑھا دی گئی تھی تاکہ کم عمر شادیوں کو روکا جاسکے۔[9]

رسم و رواج تسلیم کیے گئے

اس قانون کی دفعہ 7 کے تحت شادی کے رسم و رواج تسلیم کیے گئے۔ ہندو شادی کی تکمیل کسی بھی فریق کے طور طریقوں سے مکمل ہو سکتی ہے۔ ان رسم ورواج میں سپتپدی — زوجین کی جانب سے آگ کے آگے سات پھیرے لینا شامل ہے۔ شادی آخری پھیرے کے ساتھ مکمل مانی جاتی ہے۔[10]

اندراج

جیساکہ اس قانون کی دفعہ 8 بیان کیا گیا ہے، ریاستی حکومتیں ہندو قانون شادی 1955ء کے تحت شادیوں کے اندراج کے اقدامات کرسکتی ہیں۔ اندراج کا مقصد ان شادیوں کے ثبوت کو یقینی بنانا۔ اس دفعے سے متعلق تمام قواعد ریاستی اسمبلی کے روبرو پیش کیے جا سکتے ہیں۔ ہندو شادی کا رجسٹر(The Hindu Marriage Register) معائنے کے لیے ہر مناسب وقت کھلا ہونا چاہیے اور اسے درج شدہ بیانات کے ساتھ ثبوت کے طور پر قابل قبول ہونا چاہیے۔

شادی کی تنسیخ اور طلاق

ہر شادی قابل تنسیخ ہو سکتی ہے اور اسے حسب ذیل بنیادوں پر فسخ کیا جا سکتا ہے: شادی میں عنانت کی وجہ سے جسمانی تعلق کا قائم نہ ہونا، دفعہ 5 میں مذکور بارسوخ رضامندی اور دماغی فتور کی خلاف ورزی یا لڑکی کا بہ وقت شادی نوشہ کے علاوہ کسی اور سے حاملہ ہونا۔ طلاق کی عرضی شوہر یا بیوی کی جانب سے کچھ بنیادی پر دی جا سکتی ہے جیسے کہ دو یا اس سے زائد سالوں کی جدائی، ہندو مت کے علاوہ کسی اور مذہب کا قبول کرنا، دماغی عدم توازن، جنسی مرض اور جذام۔ ایک بیوی شادی ختم کرنے کی درخواست دے سکتی ہے اگر شوہر دوسری شادی کرے یا وہ زنابالجبر، لواطت، حیوانات سے خواہشات نفسانی کی تکمیل کی کوشش کرے۔ نئے شادی شدہ جوڑے ایک سال کے اندر طلاق کی درخواست نہیں دے سکتے۔

سُپریم کورٹ کا 2012ء میں فیصلہ

دستور ہند کی دفعہ 142 کے تحت تفویض کردہ اختیارات کے تحت اگست 2012ء میں بھارت کے سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ باہمی مفاہمت کے تحت چھ مہینے کی آزمائشی میعاد دوران بھی ختم ہو سکتی ہیں جو ہندو قانون شادی 1955ء میں مذکور ہے۔ اس قانون کی دفعہ 13-B کے تحت طلاق کے خواہش مند زوجین کو طلاق کی پہلی ملی جلی درخواست کے بعد چھ مہینے تک انتظار کرنا ضروری تھا۔ اس میعاد کی تکمیل کے بعد ہی زوجین اپنی شادی کی تحلیل کے لیے دوسری درخواست دے سکتے تھے۔[11]

اس فیصلے کو سناتے ہوئے جسٹس التمش کبیر نے کہا: "اس میں شک نہیں کہ قانون ساز ادارے نے اپنی فراست سے چھ مہینے کے آزمائشی دور (cooling period) کا سجھاؤ پیش کیا تھا کہ باہمی درخواست کے ادخال سے باہمی طلاق کی تکمیل تک یہ جاری رہے، جس کا مقصد یہ تھا کہ شادی کے رشتے کا تحفظ ہو سکے۔ مگر ایسے مواقع ہو سکتے ہیں جب فریقین کو انصاف کی تکمیل کے لیے یہ ضروری ہو کہ یہ عدالت دستور ہند کی دفعہ 142 کے تحت تفویض کردہ اختیارات کے تحت ناقابل مصالحت صورت حال (زوجین کے درمیان) کے تحت کوئی فیصلہ سنائے۔ جب یہ ممکن نہیں ہو سکا کہ فریقین ایک ساتھ رہ کر ایک سال سے زیادہ اپنے ازدواجی فرائض کی تکمیل کریں، ہم ایسی کوئی وجہ نہیں دیکھتے کہ فریقین یہ تکلیف دہ صورت حال مزید دو مہینے جھیلیں۔"

قوانین شادی (ترمیم) بل 2010ء

قانون کمیشن کی سفارشات کے تحت قوانین شادی (ترمیم) بل 2010ء کی تجویز رکھی گئی جس کا مقصد ہندو قانون شادی 1955ء اور خصوصی شادی قانون، 1954ء کی ترامیم تاکہ طلاق ناقابل اصلاح حد تک شادی کے ٹوٹ جانے کی صورت میں آسان ہو جائے۔ یہ بل پارلیمنٹ میں 2012ء میں پیش کیا گیا۔ یہ بل دفعہ 13-B کے الفاظ "چھ مہینے سے پہلے نہیں" کو "درخواست کے حصول پر" سے بدلنے کی کوشش تھی۔

اس میں بیوی کے تحفظ کے لیے ایک نئی دفعہ 13D شامل ہے جس کے تحت بیوی کسی فیصلے کے صادر ہونے کی مخالفت اس بنیاد پر کرسکتی ہے کہ شادی کی تحلیل سے اسے شدید مالی تنگی سے دوچار ہونا پڑے گا اور یہ دیگر حالات کے بہ شمول شادی کی تحلیل کی غلط وجوہات کا حصہ ہوگا۔

نئی دفعہ 13E کے تحت طلاق کے فیصلے پر حدبندی شادی کے دائرے سے باہر مولود بچوں کا احاطہ کرتی ہے اور بیان ہے کہ عدالت ایسا کوئی فیصلہ دفعہ 13C کے صادر نہیں کرے گا جب تک عدالت مطمئن نہ ہو کہ شادی کے دائرے سے باہر مولود بچوں کی پرورش کی سہولت دستیاب نہیں ہے جو شادی کے فریقین کے مالی استطاعت کے مطابق طے ہو۔

قوانین شادی (ترمیم) بل 2010ء اسی طرح کی ترامیم خصوصی شادی قانون، 1954ء میں کرتا ہے جس میں "چھ مہینے سے پہلے نہیں" کو "درخواست کے حصول پر"سے تبدیلی اور شادی کے دائرے سے باہر مولود بچوں پر طلاق اثراندازی پر حدبندی شامل ہے۔

تاہم اس بل کی شدید مخالفت اس وجہ سے کی گئی ہے کیونکہ اس سے عورتوں پر زیادتیاں بڑھیں گی اور اس بل میں ایک فریق کی پُرزور حمایت ہے جبکہ طلاق میں دونوں فریقوں کو مساوی سلوک ملنا چاہیے۔[12] لہٰذا اس بل میں چھ مہینے کی میعاد کو ہٹانے کے لیے عورتوں کی رضامندی شامل کرنے کے لیے ترمیم کی گئی۔ شامل الفاظ یہ ہیں: "شوہر اور بیوی کی جانب سے درخواستوں کے حصول کی صورت میں۔"

اس بل کو راجیہ سبھا کی جانب سے 2013ء میں منظوری حاصل ہوئی۔[13] حالانکہ لوک سبھا کی منظوری اب بھی درکار ہے۔

اس بل کے خلاف وسیع پیمانے پر احتجاج ہوئے۔ ہُرادَیا، کولکاتا کی ایک غیر سرکاری تنظیم نے اس بل کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے۔ امرتیہ تعلقہ دار (مردوں کے حقوق کے جانے مانے کارکن) نے اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ اس بل میں بغیرکسی کوتاہی طلاق کا تعارف صرف ہندوؤں کے لیے کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق "اگر حکومت واقعی خواتین کو بااختیار بنانا چاہتی ہے تو اسے یہ سماج کے ہر طبقے کے لیے ہونا چاہیے۔ ان کو یونیفارم سیول کوڈ لانا چاہیے۔ یہ صرف ہندوؤں کے لیے کیوں ہے؟"[14][15][16]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

خارجی روابط