ہم جنس پرستی

ہم جنس کی طرف پائی جانے والی رومانوی یا جنسی کشس یا جنسی رویہ
(ہم جنسیت سے رجوع مکرر)

ہم جنس پرستی یا ہم جنسیت (انگریزی: Homosexuality) ایک ہی جنس یا صنف کے حامل افراد کے مابین پائے جانے والی رومانوی کشش، جنسی کشش یا جنسی رویہ ہے۔ ایک جنسی رجحان(sexual orientation)  کے طور پر ہم جنسیت ہم جنس لوگوں کی طرف "جذباتی، رومانوی اور جنسی کشش کی مستقل صورت ہے۔" یہ "ایک شخص کے احساس کی شناخت کا بھی حوالہ ہے جس کی بنیاد ان میلانات، متعلقہ رویوں اور دوسروں کی کمیونٹی کی ر کنیت ہے جو ایک جیسی دلچسپیاں بانٹتے ہیں۔"[1][2]

2013 میں ایک رسرچ،جس میں لوگوں نے کہا کہ ’’ہاں،ہم جنسی صحیح ہے‘‘۔ ہاں کرنے والے ممالک کے فیصد:
  81% - 90%
  71% - 80%
  61% - 70%
  51% - 60%
  41% - 50%
  31% - 40%
  21% - 30%
  11% - 20%
  1% - 10%
  No data
عالمی قوانین ،س

ہم جنسیت، مخالف جنسیت اور دوجنسیت کے ساتھ ساتھ مخالف جنسی – ہم جنسی مسلسلہ (heterosexual–homosexual continuum) کے اندر جنسی رجحان کی تین اہم درجہ بندیوں میں سے ایک ہے۔[1] سائنس دان جنسی رجحان کی صحیح وجہ نہیں جانتے، لیکن انکا یقین ہے یہ جینیاتی، ہارمونی اور ماحولیاتی اثرات کا ایک پیچیدہ تعامل ہے[3][4][5] اور اس کو ایک چناؤ بھی نہیں سمجھتے۔[6][3][4] وہ حیاتیات کی بنیاد پہ قائم کیے گئے نظریات کی تائید کرتے ہیں،[3] جس کا رخ جینیاتی عوامل، ابتدائی رحم کا ماحول، دونوں یا جینیاتی اور معاشرتی عوامل کی شمولیت ہے[7][8] ایسا کوئی مستحکم ثبوت موجود نہیں ہے جو یہ تجویز کرسکے کہ جنسی رجحان پر والدین کی تربیت یا ابتدائی بچپن کے تجربات کردار ادا کرتے ہیں۔[8] جبکہ کچھ لوگوں کا یقین ہے کہ ہم جنسی سرگرمی غیر فطری ہے۔[9] سائنسی تحقیق کے مطابق انسانی جنسیت میں ہم جنسیت ایک نارمل اور قدرتی متنوعیت ہے، اس میں اور نہ یہ ازخود منفی نفسیاتی اثرات کا ذریعہ ہے۔[1][10] جنسی رجحان کو تبدیل کرنے کے لیے نفسیاتی مداخلت کے استعمال کی تائید میں ناکافی ثبوت ہے۔ [11]

ہم جنس پرستی کی اصطلاحات

ہم جنس پرست لوگوں کے لیے سب سے عام اصطلاحات میں عورتوں کے لیے لیسبئین (lesbian) اور مردوں کے لیے گے (gay) ہے، تاہم ہم جنسی عورتوں اور مردوں دونوں کا حوالہ دینے کے لیے عام طور پر گے (gay) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ مختلف وجوہات کی بنا پر محققین کے لیے ایسے لوگوں کی تعداد کے تناسب کا قابل اعتماد اندازہ لگانا مشکل ہے جو خود کو گے (gay) یا لیسبیئن (lesbian) کے طور پر شناخت کراتے ہیں اور ہم جنس سے جنسی تجربات رکھتے ہیں۔ بشمول بیشتر ہم جنسی مرد اور عورتیں ہوموفوبیا (Homophobia) اور ہیٹروسیکسٹ (Heterosexist)تفریق کی وجہ سے کھل کے خود کی شناخت نہیں کراتے۔ [12] ہم جنس پرست رویہ بہت سے غیر انسانی حیوانی انواع میں مشاہد اور دستاویز کیا گیا ہے۔[13][14][15][16] [17]

بہت سے گے [gay] اور لیسبئین [lesbian]  لوگ ہم جنس تعلقات میں وابستہ ہوتے ہیں، اگرچہ حال ہی میں مردم شماری فارم اور سیاسی حالات نے ان کے ظاہر ہونے اور شمار کیے جانے کو تقویت دی ہے۔[18] یہ تعلقات نفسیاتی ضرورت کے لحاظ سے مخالف جنس پرست تعلقات کے برابر ہیں۔[2] ہم جنس پرست تعلقات اور اعمال کو سراہا گیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ریکارڈ کی گئی تاریخ بھر میں مذمت بھی کی گئی ہے جو اس پہ منحصر کرتی ہے کہ وہ کس قسم کے ہیں اور کس ثقافت میں واقعہ ہوئے ہیں۔[19] انیسویں صدی کے اختتام کے بعد سے ہم جنس پرست افراد کی حمایت میں نموداری، پہچان اور قانونی حقوق کی بڑھتی ہوئی عالمی تحریک چلی آ رہی ہے بشمول ہم جنس شادی کے حقوق اور شہریوں کی تنظیمیں، بچے گود لینے اور والدین بننے کے حقوق، ملازمت، فوجی خدمات، صحت اور دیکھ بھال تک برابر رسائی اور ہم جنس پرست اقلیت کے تحفظ کے لیے ان پہ استعمال ہونے والے دھونس کے خلاف قانون سازی کا تعارف۔

تاریخ

ہم جنس تعلقات کی جانب سماجی رویے وقت اور جگہ کے لحاظ سے مختلف ہیں: معاشرے کے سبھی مردوں کا ہم جنس تعلقات میں مشغول ہونے کی توقع رکھنا سے لے کر بے تکلف میل جول، پسندیدگی اور رضامندی، اس عمل کو معمولی گناہ کے طور پر دیکھنے سے، قانون کے ذریعے دبانے سے، عدالتی طریقہ کار اور نفاذ کے ذریعے، موت کی سزا کے تحت پابندی عائد کرنے میں۔

قبل از صنعت کی ثقافتوں کے تاریخی اور نسلی مطالعہ کی تفصیلی تالیف میں "ہم جنس پرستی 42 ثقافتوں میں سے 41٪ کے نزدیک سخت نامنظور سمجھی گئی، 21٪ کو قبول تھی یا نظر انداز کردی گئی اور 12٪ کے نزدیک اس کا کوئی تصور نہیں تھا۔ نسلی اعتبار سے 70 میں سے 59٪ کا کہنا تھا کہ ہم جنس پرستی وجود نہیں رکھتی یا بہت کم تعدد میں ہے اور 41٪ کے نزدیک یہ وجود رکھتی ہے اور بہت عام ہے۔"[20]

ابراہیمی مذاہب کے زیر اثر ثقافتوں میں قانون اور کلیسا نے دبری جماع کو قانون الہی کی خلاف ورزی یا فطرت کے خلاف جرم قرار دیا۔ البتہ مردوں کے درمیان مقعد جنسی سے انکار مسیحی عقیدے کی پیشن گوئی کرتا ہے۔ قدیم یونان میں ہم جنس پرستی عام تھی؛ "غیر فطری” سے افلاطون کا پتا لگایا جا سکتا ہے۔[21]

بہت سی تاریخی شخصیات ، بشمول سقراط، لارڈ برائین، ایڈورڈ دوم اور ہارڈئین،[22] نے گے اور بائیسیکشول کی اصطلاح اپنے اوپر لاگو کی ہیں۔

افریقہ

تاریخ میں ممکنہ ہم جنس پرست جوڑے کے پہلے ریکارڈ کا حوالہ عام طور پر ایک قدیم مصری مرد جوڑے ‘خنم حوطپ اور نائن خخنم’ کا دیا جاتا ہے جو اندازً 2400 قبل مسیح میں رہے تھے۔ اس جوڑے کی شبیہ ناک پہ بوسہ لینے والی حالت میں اتاری گئی ہے جو مصری آرٹ میں سب سے زیادہ یگانگت ظاہر کرنے والا ایک انداز ہے اور انھیں گھیرے ہوئے جو لوگ نظر آتے ہیں وہ شاید ان کے وارثین ہیں۔ ماہرین بشریات سٹیفن مورے اور ول روسکو نے بیان کیا ہے کہ لیسوتھو میں خواتین سماجی طور پر منظور شدہ، لمبے عرصے کے شہوانی تعلق میں استوار رہی ہیں جسے موٹسوال کہتے ہیں۔[23]  ماہر بشریات ایوانز-پریٹچرڈ بھی بتاتا ہے کہ شمالی کانگو میں نر آزاندے جنگنجو باقاعدہ طور پر بارہ سے بیس سال کے درمیان میں کے نر نوجوان پریمئوں کو اٹھا لیتے جو گھریلو کاموں میں مدد کرتے اور بڑی عمر کے خاوندوں کے ساتھ ٹانگوں کے درمیان میں جنسی عمل (intercrural sex) میں حصہ لیتے۔[24]

دو روح انسان کے جشن کے لیے رسمی رقص George Catlin (1796–1872); Smithsonian Institution, Washington, DC

امریکا

یورپی نوآبادی سے پہلے امریکا کے مقامی باشندوں کے درمیان میں ہم جنس سے جنسی تعلق کی ایک عام قسم دو روح (Two-Spirit) فرد کی فکر کا مرکز تھی۔ عام طور پر ایسا فرد ابتدائی زندگی میں تسلیم کر لیا جاتا تھا، والدین ایسے بچے کو اپنے راستے کا چناؤ دیتے اگر بچہ کوئی ایک کردار قبول کرتا تو اس کی مناسب انداز میں پرورش کرتے اور وہ اپنی صنف سے متعلق روایات کو سیکھتا رہتا جس کا اس نے چناؤ کیا تھا۔ دو روح انسان عام طور پر شَمَن تھے اور عام شَمَنوں سے زیادہ اقتدار حاصل کرنے کے طور پر قابل احترام تھے۔ ان کی جنسی زندگی قبیلے کے عام ہم جنس ارکان کے ساتھ تھی۔

ہم جنس پرست اور مخنث افراد لاطینی امریکا میں قبل از فتح کردہ دیگر تہذیبوں میں بھی عام تھے، جیسا کہ آزٹیک، مایا، کیچووا، موشیز، زاپوٹیک اور برازیل کے ٹپنامبا۔[25][26]

ہسپانوی فاتح مقامی باشندوں میں صدومیت کو کھلے عام ہوتے ہوئے دیکھ کر خوف زدہ تھے اور انھوں نے اسے خواجہ سرایت (برداچیز: ہسپانوی انھیں اس نام سے بلاتے تھے) کے زمرے میں ہسپانوی قانون کے تحت سخت جرمانوں سے کچل کر ختم کرنے کی کوشش کی، جس میں سرعام قتل، جلانا اور کتوں سے ٹکڑے ٹکڑے کروا دینے جیسی سزائیں شامل تھیں۔[27]

سال 1986ء میں عدالت عظمیٰ ریاست ہائے متحدہ نے بوورز بمقابلہ ہارڈوک کے حکم دیا کہ کوئی بھی ریاست صدومی کو مجرمانہ عمل قرار دے سکتی ہے۔ سال 2003ء میں عدالت نے اس  فیصلے کو ختم کر دیا۔[28]

سال 1998ء میں ریاست ہوائی نے ہم جنس پرستوں کی شادیوں کے خلاف ایک آئینی ترمیم منظور کی۔[29] سال 2013ء میں ایک حکمران نے اس ترمیم پر ریاستی اٹارنی جنرل کی طرف سے حکومت کو ہم جنس پرست شادی کو قانونی حیثیت دینے کی قانونی منظوری دی۔[30]

ایک خاتون دو مرد پریمئیوں کو چھپ کے دیکھتے ہوئے، قون شاہی خاندان، چینی جنسی ثقافتی عجائب گھر، شنگھائی

مشرقی ایشیا

مشرقی ایشیا میں ہم جنس محبت کا حوالہ تاریخ کے ابتدائی ترین ریکارڈ سے ملتا ہے۔

چین میں ہم جنس پرستی کٹے ہوئے آڑو کے جذبات اور اس جیسی دوسری بہت سی کومل بانیوں سے جانی جاتی تھی جو اندازً 600 قبل مسیح سے ریکارڈ کی گئی ہے۔ چینی ادب کے بہت سے مشہور کاموں میں ہم جنس پرستی کا ذکر کیا گیا ہے۔ کلاسیکی ناول ڈریم آف دی ریڈ چیمبر میں ہم جنسی محبت اور جنسی رابطوں کی مثالیں بیان کی گئی ہیں جو بظاہر موجود دور کے مبصرین کے لیے اتنی ہی عام ہیں جتنی مخالف جنس پرست لوگوں کی رومانوی کہانیاں ہیں۔ کنفیوشس ازم، بنیادی طور پر ایک سماجی اور سیاسی فلسفہ ہونے کی وجہ سے جنسیت پر کم توجہ مرکوز کرتا ہے چاہے وہ ہم جنس پرستی ہو یا مخالف جنس پرستی۔ منگ شاہی خاندان کے ادب، جیسے بان ار چائی، مردوں کے درمیان میں ہم جنس پرست تعلقات کو مخالف جنس پرست تعلقات سے زیادہ لطف اندوز اور زیادہ ‘ہم آہنگ’ قرار دیتے ہیں۔[31] وانگ شونو سے لیو سانگ شاہی خاندان کی تحریریں دعویٰ کرتی ہیں کہ تیسری صدی عیسوی کے اواخر میں ہم جنس پرستی اتنی ہی عام تھی جتنی مخالف جنس پرستی۔[32]

چین میں ہم جنس پرستی کی مخالفت قرون وسطی میں تانگ راج خاندان (618–907) سے اخذ ہوتی ہے جو مسیحیت اور اسلام کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ سے منسوب ہے،[33] لیکن آخری قون راج خاندان اور جمہوریہ چین کی مغربیت زدہ کوششوں تک پوری طرح قائم نہیں ہو سکی تھی۔[34]

جنوب مشرقی ایشیا

سنگا پور

جون 2014ء میں بیس ہزار حامیوں نے ہم جنس پرست حقوق کی حمایت میں مظاہرہ کیا۔

29 اکتوبر، 2014ء کو سنگاپورکی عدالت عدلیہ نے سدومی قانون کے خلاف ایک آئینی چیلنج کو رد کر دیا۔ قانون دو سال جیل قید کی سزا تجویز کرتا ہے۔[35]

جنوبی ایشیا

منو کے قوانین ‘تیسری جنس’ کے ارکان کا ذکر کرتے ہیں جو غیر روایتی صنفی اظہار اور ہم جنس پرست سرگرموں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔[36]

نوجوان خواتین کو لافونڈ نے اس پینٹنگ میں سافو کے اردگرد دکھایا ہے "Sappho sings for Homer"، 1824.

یورپ 

کلاسیکی دور

ہم جنس تعلقات سے متعلقہ ابتدائی مغربی دستاویزات (ادبی کاموں، آرٹ اشیاء اور افسانوی مواد کے طور پر) قدیم یونان سے اخذ کی گئی ہیں۔

مرد ہم جنس پرستی کے سلسلے میں دستاویزات ایک ایسی دنیا کی تصویر کھینچتی ہیں جس میں عورت سے تعلقات اور نوجوانوں سے تعلقات ایک عام مرد کی محبت بھری زندگی کا لازمی حصہ تھے۔ ہم جنس تعلقات ایک معاشرتی ادارہ تھے جو وقت کے ساتھ اور ایک شہر سے دوسرے شہر مختلف بناوٹ کے تھے۔ ایک آزاد جوان مرد اور ایک آزاد نوجوان مرد کے درمیان میں ایک شہوانی لیکن محدود تعلق اس کے تعلیمی فوائد اور آبادی پہ قابو کے ذریعے کی حیثیت سے قابل قدر جانے گئے تھے، اگرچہ کبھی کبھار کی خرابی کی شکایت کے باعث موردالزام سمجھے جاتے تھے۔ افلاطون نے اپنی ابتدائی تحریروں میں ان تعلقات کے فوائد کی تعریف کی ہے[37] لیکن اپنے آخری کاموں میں ان پہ پابندی تجویز کی ہے۔[38] ارسطو نے سیاست کے اندر افلاطون کے ہم جنس پرستی کے بارے میں دیرینہ خیالات کو مسترد کیا ہے (2.4)؛ وہ وضاحت کرتا ہے کہ سیلٹس کی طرح بربادیوں نے اسے ایک خاص اعزاز قرار دیا ہے (2.6.6)، جبکہ کریٹنز نے اسے آبادی پہ قابو کے لیے استعمال کیا ہے۔ (2.7.5)۔[39]

دو ہم جنس پرستوں کو زیورخ شہر سے باہر لکڑی کی کھونٹیوں پہ باندھ کے جلایا جا رہا ہے۔ 1482 (Spiezer Schilling)

زمانہ قدیم میں عورتوں کی ہم جنس پرستی کے بارے میں بہت کم جانکاری ہے۔ سافو، لیسبوس کے جزیرے پر پیدا ہوئی تھی اور آخری یونانیوں نے اس کو نو نغمہ نگار شعرا کی مذہبی فہرست میں شامل کیا تھا۔ اس کے نام اور مقام پیدائش (Sapphic and Lesbian) سے ماخوذ صفات انیسویں صدی کے شروع میں عورتوں کی ہم جنس پرستی پہ لاگو ہو گئیں۔[40][41] سافو کی شاعری مختلف کردار اور دونوں اصناف کے پیار اور عشق کا مرکز تھی۔ اس کی نظموں کے راوی بہت سی خواتین کے لیے پیار اور دیوانگی (sometimes requited, sometimes not) کی بات کرتے ہیں، لیکن عورتوں کے درمیان میں کیے جانے والے جسمانی افعال کی تفصیل بہت کم اور بحث طلب موضوع ہے۔[42][43]

قدیم روم میں نوجوان مرد کا جسم مرد کی جنسی توجہ کا مرکز رہا تھا، لیکن تعلقات بڑی عمر کے آزاد مرد اور غلاموں کے درمیان میں تھے یا آزاد نوجوان جو جنسی عمل میں مفعول کا کردار نبھاتے تھے۔ ہیلینوفیل کا شہنشاہ حیدرین، انتیوس کے ساتھ اپنے تعلق کے لیے مشہور ہے، لیکن مسیحی شہنشاہ تھیوڈوسیس اول 6 اگست 390ء کو مفعول مردوں کی مذمت کرتے ہوئے ایک قانون کا فرمان جاری کرتا ہے کہ ان کو لکڑی کے کھونٹے سے باندھ کے جلادو۔ جنسٹینین، اپنی حکمرانی کے اختتامی دور میں فعال ساتھی کی بھی مذمت کرتا ہے (558ء میں) اور خبردار کرتا ہے کہ ایسے انتباہ 'خدا کے غضب' کے ذریعے شہروں کو تباہی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ ان قواعد و ضوابط کے باوجود ہم جنس پرستوں کے جنسی عمل کے لیے قحبہ خانوں میں لڑکوں کی دستیابی پر محصولات اناستاسئس اول کے راج کے آخر (518ء میں) تک اکٹھے کیے جاتے رہے۔

تحریکِ نو 

تحریکِ نو کے دوران میں شمالی اٹلی کے امیر شہروں میں — خاص کر فلورنس اور وینس — ہم جنس محبت میں وسیع پیمانے پر جاری عمل کے لیے مشہور تھے جس میں مرد آبادی کا کافی حصہ تھا جو کلاسیکی یونان اور روم کی طرز پہ قائم تھا۔[42][44] لیکن یہاں تک کہ جب بہت سی مرد آبادی ہم جنس تعلقات میں ملوث تھی، حکام رات کی عدالت کے افسران کی سرپرستی کے تحت اس آبادی کے ایک اچھے خاصے حصے کو پریشان کرتے، جرمانے لگاتے اور جیل قید کرتے رہے تھے۔

تیرھویں صدی کے دوسرے نصف سے زیادہ تر یورپ میں ہم جنس مرد کی سزا موت تھی۔[45] سماجی طور پر مشہور شخصیات کے تعلقات جیسا کہ کنگ جیمز اول اور ڈیوک آف بکنگہم نے اس مسئلے پر روشنی ڈالنے کی خدمات سر انجام دیں، بشمول گلیوں کے پرچوں کے گمنام مصنف: "دنیا بدل گئی ہے میں نہیں جانتا کس طرح، مرد کے بوس و کنار کے لیے مرد ہے، اب عورت نہیں ہے؛۔۔۔ یہ سچ ہے، جے اول اور بکنگہم: وہ، اپنی بیویوں سے بھاگ گئے، اپنے پیارے گانومدہ کو چاٹنے۔" (Mundus Foppensis, or The Fop Display’d, 1691)

جدید دور

سنہ 1723ء میں 'پُریقین لیٹ نوبل مین اور معروف مسٹر ولسن کے درمیان میں پیار بھرے خطوط’ شائع ہوئی تھی اور بعض جدید علما نے اسے ناول کے طور پہ پیش کیا تھا۔ 1749ء میں جان کلیلینڈ کے مشہور ناول ‘فینی ہل’ میں ایک ہم جنس پرست منظر تھا، لیکن یہ 1750ء کے ایڈیشن میں ختم کر دیا گیا تھا۔ نیز 1749ء میں تھوماس کینن نے انگریزی زبان میں ہم جنس پرستی کا ابتدائی ترین مفصل اور دفاعی سلسلہ "جدید امردپرستی کی تحقیقات اور مثالیں” لکھا جو شائع تو ہوا لیکن تقریباً فوری طور پر دبا دیا گیا۔ اس میں پیرا شامل تھا "غیر فطری خواہش اصطلاحاً ایک تضاد ہے: سیدھی سادی بکواس ہے۔ خواہش انسانی حصوں کے اندر کی ایک شہوانی تحریک ہے۔"[46] سنہ 1785ء کے لگ بھگ جیریمی بینتہم نے ایک دوسرا دفاع لکھا لیکن یہ 1978ء تک شائع نہ ہو سکا تھا۔[47] نیدرلینڈ میں 1803ء تک سدومی کے خلاف قانونی پھانسی جاری رہی اور انگلستان میں 1835ء تک۔

سنہ 1864ء تا 1880ء کے درمیان میں کارل ہینرچ اولرچس نے بارہ قطعوں کا سلسلہ وار شائع کیا جس کو اس نے ‘مرد کا مرد سے پیار کے مُعمہ پر تحقیق’ کا مجموعی عنوان دیا۔ 1867ء میں وہ عوامی طور پر ہم جنس پرستی کے دفاع میں آواز اٹھانے کے لیے پہلا ازخود علانیہ ہم جنس پرست بن گیا جب اس نے میونخ میں جرمن کانگرس کے ماہر قانون سے ہم جنس پرست مخالف قوانین کو منسوخ کرنے کی پُرزور درخواست کی۔[12] 1896ء میں ہیولوک ایلس کی لکھی ‘جنسی تنازعات’ شائع ہوئی جس نے ہم جنس پرستی معمول سے انحراف ہے جیسے نظریات کو چنوتی دی اس کے ساتھ ساتھ دقیانوس تصورات کو بھی اور ہم جنس پرستی کی شراکت اور فنکارانہ کامیابی کی ہر جگہ موجودگی پر اصرار کیا۔[48]

اگرچہ ان جیسی طبی عبارتیں (جنسی وضاحتیں مبہم کرنے کے لیے جزوی طور پر لاطینی میں لکھی گئی) عام لوگوں سے بہت زیادہ نہیں پڑھی جاتی تھیں، انہی نے میگنس ہیرچفیلڈ سائنسی انسان دوست کمیٹی کی قیادت کی، جس نے 1897ء سے 1933ء تک جرمنی میں سدومی مخالف قوانین کے خلاف مہم چلائی، ساتھ ساتھ برطانوی دانشوروں اور لکھاریوں نے زیادہ غیر رسمی، غیرتشہیر شدہ تحریک چلائی جس کی قیادت ایڈورڈ کارپینٹر اور جان ایڈنگٹن سیمنڈز جیسی شخصیات نے کی۔ سنہ 1894ء کی شروعات ہوموجینک پیار سے ہوئی، سماجی کارکن اور شاعر ایڈورڈ کارپینٹر نے ہم جنس پرستی کے حامی کتابچوں اور مضامین کے لیے ایک سلسلہ وار لکھا اور 1916ء میں اپنی کتاب میرے دن و خواب میں ‘آشکار’ ہوا۔ سنہ 1900ء میں ایلیسر وون کوپفر نے ہم جنس پرست ادب پر زمانہ قدیم سے تب تک کا بیاض شائع کیا، Lieblingminne und Freundesliebe in der Weltliteratur۔

فارس کا شاہ عباس اول ایک لڑکے کے ساتھ۔ بذریعہ محمد قاسم (1627)۔ [49]

مشرق وسطیٰ

سنہ 1800ء کے وسط کے دوران یورپ میں عرب مسافروں کی ایک مٹھی بھر رقم تاریخ ہے، ان میں سے دو مسافر رفاح الطاہتاوی اور محمد ازسفر اپنی حیرانیت ظاہر کرتے ہیں کہ کبھی کبھار فرانسسیسی اپنے سماجی معیار اور اخلاقیات کو برقرار رکھنے کے لیے نوجوان لڑکے سے پیار کے بارے میں دانستہً غلط ترجمہ کرتے ہیں اور اس کی بجائے ایک نوجوان خاتون کا حوالہ دے دیتے ہیں۔ [50]

ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو ہم جنس پرستوں کے لیے سب سے زیادہ روادار ملک[51] تصور کرنے کے ساتھ تل ادیب کو 'مشرق وسطیٰ کا گے دار الحکومت' ہونے کا نام دیا گیا ہے،[52] اور دنیا میں سب سے زیادہ گے دوستانہ ملک سمجھا جاتا ہے۔[53] تل ادیب میں ہم جنس پرستی کی حمایت میں سالانہ پرائڈ پریڈ ہوتی ہے۔[54]

دوسری طرف مشرق وسطیٰ میں بہت سی حکومتیں ہم جنس پرستی کو نظر انداز کرتی ہیں، اس کی موجودگی کا انکار کرتی ہیں یا اس عمل کو مجرمانہ قرار دیتی ہیں۔ ہم جنس پرستی لگ بھگ سبھی مسلم ممالک میں غیر قانونی ہے۔[55] کئی مسلم اقوام ہم جنس مباشرت پہ سرکاری طور پر موت کی سزا سناتی ہیں: سعودی عرب، ایران، ماریطانیہ، شمالی نائیجیریا، سوڈان اور یمن۔[56] 2007ء میں کولمبیا یونیورسٹی میں ایرانی صدر محمود احمدینجاد اپنے خطاب کے دوران میں دعوے سے کہتا ہے کہ ایران میں کوئی گے لوگ نہیں ہیں۔ تاہم، ممکنہ وجہ یہ ہے کہ وہ سرکاری منطوری یا اپنے خاندان کی تردید کے ڈر سے اپنی جنسیت کو راز رکھتے ہیں۔[57]

قبل از اسلام کا دور

قدیم اشوریہ میں ہم جنس پرستی موجود تھی اور عام تھی، اس کی ممانعت نہیں تھی، نہ مذمت، نہ غیر اخلاقی یا بدنظمی کے طور پر دیکھی جاتی تھی۔ کچھ مذہبی نصوص ہم جنس پرست تعلقات پر خدائی برکات کی دُعاوں پر مشتمل ہیں۔[58][59] منتروں کی جنتری (Almanac of Incantations) ایک مرد کا عورت سے، ایک عورت کا مرد سے اور ایک مرد کا مرد سے پیار پر مساوی بنیاد پر خیرخواہی کی دعاؤں پر مشتمل ہے۔[60]

ایران عظمیٰ میں ہم جنس پرستی اور ہم جنس شہوانی اظہار بیشتر پبلک مقامات پر روادار رکھے جاتے تھے، خانقاہوں اور دینی مکتبوں سے مے خانوں، فوجی خیموں، حمام اور قہوہ خانوں تک۔ ابتدائی صفوی سلطنت میں (1501ء تا 1723ء)، مردانہ قبحہ خانے (امرد خانے) قانونی حیثیت رکھتے تھے اور محصول ادا کرتے تھے۔

بعض علما دلائل دیتے ہیں کہ قدیم ادب میں ہم جنس پرست محبت کی مثالیں ہیں، جیسے بین النہرین (میسوپوٹیمیا) کی رزمیہ گلگامش، اس کے ساتھ ساتھ بائبل کی ڈیوڈ اور جوناتھن کی کہانی۔ رزمیہ گلگامش کے مرکزی کردار گلگامش اور اہم کردار انکیدو کے درمیان میں تعلق کو کچھ لوگ ہم جنس پرست فطرت میں دیکھتے ہیں۔[61][62][63][64] اسی طرح ڈیوڈ کا جوناتھن کے لیے پیار "عورت کے پیار سے عظیم” ہے۔[65]

جنوبی الکاہل

میلانیشیا کے بہت سے معاشروں میں خاص طور پر پاپوانیوگنی میں ہم جنس تعلقات گذشتہ صدی کے وسط تک ثقافت کا ایک لازمی حصہ تھے۔ مثال کے طور پر ایتورو اور میرنڈانیم، جو یہاں تک کہ مخالف جنس پرستی کو گناہ کے طور پر دیکھتے تھے اور اس کی بجائے ہم جنس پرستی کا جشن مناتے تھے۔ بہت سی روایتی میلانیشی ثقافتوں میں ایک قبل از بلوغت لڑکا ایک بڑی عمر کے نوجوان لڑکے کے ساتھ جوڑی بنا دیا جاتا، اس کا مرشد بن جاتا اور جو اس سے "تخم ریزی" کرتا (دہنی، دبری یا مالیشی، یہ قبیلہ پر منحصر ہوتا) اتنے سالوں کی ترتیب سے کہ نسبتاً کم عمر لڑکا بھی بلوغت تک پہنچ جاتا۔ تاہم بہت سے میلانیشین معاشرے یورپی مشنریز کی وجہ سے مسیحیت کے متعارف کے بعد ہم جنس تعلقات کے مخالف بن چکے ہیں۔[66]

جنسیت اور شناخت

رویے اور خواہش

امریکی تنظیم برائے علم نفسیات، امریکی تنظیم برائے طب نفسیات اور قومی تنظیم برائے سماجی کارکنان، جنسی رجحان کی شناخت کرتے ہیں "کوئی ایک ذاتی صفت نہیں ہے جو علاحدہ بیان کیا جا سکے۔ بلکہ ایک فرد کا جنسی رجحان افراد کے اس جہان کو بیان کرتا ہے جن کے ساتھ وہ مطمئن اور بھرپور تعلقات استوار کرے۔"[2]

جنسی رجحان عام طور پہ ایک فرد کی خصوصیت کے طور پر مباحث کیا جاتا ہے، جیسا کہ حیاتیاتی جنس، صنفی شناخت یا عمر۔ یہ نقطہ نظر نامکمل ہے کیونکہ جنسی رجحان ہمیشہ متعلقہ شرائط میں بیان کیا جاتا ہے اور یہ ضروری ہے کہ دوسرے افراد کے ساتھ تعلقات میں شامل ہو۔ ان تعلقات میں شامل ایک دوسرے سے نسبت رکھنے والے افراد کی حیاتیاتی جنس کے مطابق جنسی اعمال اور رومانوی رجحانات ہم جنس پرست اور مخالف جنس پرست کے طور پر درجہ بند ہیں۔ دراصل یہ دوسرے شخص کے ساتھ اعمال کی یا عمل کرنے کی خواہش ہے اس طرح افراد اپنی مخالف جنس پرستی، ہم جنس پرستی یا دوجنس پرستی اظہار کرتے ہیں۔ ان میں ہاتھ پکڑنا یا دوسرے شخص کا بوسہ لینا جیسے اعمال بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ لہذا جنسی رجحان آشنا شخصی تعلقات سے منسلک ہم آہنگی ہے جو انسانوں کی دوسروں کے ساتھ محبت، لگاوؑ اور یگانگت کے گہرے احساس کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تشکیل پاتے ہیں۔ یہ تعلق شریقین کے درمیان میں غیر جنسی جسمانی محبت، باہمی مقاصد اور اقدار، باہمی تعاون اور جاری عمل وابَستگی کا احاطہ کرتا ہے۔[2]

کِنزی کا پیمانہ (The Kinsey Scale)، جو مخالف جنسی - ہم جنسی شرح بندی کا پیمانہ (Heterosexual-Homosexual Rating Scale) بھی کہلاتا ہے،[67] یہ پیمانہ کسی شخص کی جنسی تاریخ یا ایک مقررہ وقت کی جنسی سرگرمی کی اقساط کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ صفر کے پیمانے سے شروع ہوتا ہے جس کا مطلب ہے مخصوص مخالف جنس پرست، چھ پہ اس کا مطلب ہے مخصوص ہم جنس پرست۔ مرد اور عورت دونوں کی کِنزی رپورٹ کی جلدوں میں ایک اضافی درجہ "ایکس” درج کیا گیا ہے جو علما کی وضاحت کے مطابق لاجنسیت کو ظاہر کرتا ہے۔[68]

سال 2004ء کے ایک مطالعہ میں فاعل عورتیں (دونوں lesbian اور straight خواتین)، دونوں بار شہوت محسوس کرتی ہیں جب انھوں نے ہم جنس پرست اور lesbian شہوت انگیز فلمیں دیکھیں۔ حالانکہ فاعل مردوں کے درمیان مخالف جنس پرست مرد شہوت انگیز فلم میں عورت کو دیکھ کے شہوت محسوس کرتے ہیں، جبکہ ہم جنس پرست مرد کو دیکھ کے شہوت محسوس کرتے ہیں۔ اس مطالعہ کے سینئر محقق نے کہا کہ عورتوں کی جنسی خواہش مردوں کے مقابلے میں کسی خاص جنس کی طرف کم لچک دار اشارہ کرتی ہے اور یہ وقت کے ساتھ زیادہ تبدیل ہوتی ہے۔[69]

 جنسی رجحان کی شناخت اور جنسی سیالیت

بسا اوقات جنسی رجحان اور جنسی رجحان کی شناخت میں تفریق نہیں ہے، جو جنسی شناخت کی تشخیص درست طریقے سے اندازہ لگانے اور جنسی رجحان تبدیل کرنے کے قابل ہونے یا نہ ہونے پر اثر انداز ہو سکتی ہے؛ جنسی رجحان کی شناخت ایک فرد کی زندگی بھر میں تبدیل ہو سکتی ہے اور حیاتیاتی جنس، جنسی رویہ اور حقیقی جنسی رجحان کے ساتھ موافق ہو سکتی ہے اور نہیں بھی ہو سکتی۔[70][71][72] جبکہ مرکز برائے عادات و دماغی صحت (Centre for Addiction and Mental Health) اور امریکی تنظیم برائے طب نفسیات (American Psychiatric Association) کا کہنا ہے کہ جنسی رجحان کچھ لوگوں کی زندگی بھر کے لیے پیدائشی، مسلسل یا مقرر ہے لیکن کچھ لوگوں کے لیے وقت کے ساتھ سیال یا متغیر ہے۔[73][74] امریکی تنظیم برائے نفسیات (American Psychological Association) جنسی رجحان (ایک پیدائشی میلان) اور جنسی رجحان کی شناخت (جو شاید کسی شخص کی زندگی میں کسی بھی وقت بدل جائے) کے درمیان میں تفریق کرتے ہیں۔ [75]

سال 2012ء کے ایک مطالعہ میں پایا گیا کہ 2560 بالغ شرکاء کے نمونوں میں سے 2٪ نے دس سال کی مدت کے بعد جنسی رجحان کی شناخت کی تبدیلی کی اطلاع دی ہے۔ وہ مرد جو مخالف جنس پرست کے طور پر شناخت کراتے تھے ان میں سے 0.78٪ میں تبدیلی رونما ہوئی، ہم جنس پرست مردوں میں سے 9.52٪ اور 47٪ دو جنس پرست میں۔ تحقیق دان تجویز کرتے ہیں کہ مخالف جنس پرستی اپنی حسب معمول حیثیت کی وجہ سے سب سے زیادہ مستحکم شناخت ہے۔ [76]

غیر مخالف جنس پرست بالغ خواتین (عمر 16-23) کے 80 نمونوں پر لیزا ایم ڈائمنڈ کے ایک دو سالہ مطالعہ نے بتایا ہے کہ نصف شرکاء نے جنسی اقلیتی شناخت کو ایک سے زیادہ بار تبدیل کیا تھا، ایک تہائی نے دو سال کے دوران میں بار بار تبدیل کیا تھا۔ ڈائمنڈ نے نتیجہ اخذ کیا "اگرچہ جنسی میلان کافی مستحکم نظر آتے ہیں لیکن جنسی شناختیں اور رویے زیادہ سیال ہیں۔"[77]

ہم جنس تعلقات 

ہم جنس پرست رجحان رکھنے والے لوگ مختلف طریقوں سے اپنی جنسیت کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے رویوں میں اس کا اظہار کرتے ہیں یا نہیں کر پاتے۔[1] بہت سے ابتدائی طور پر اپنی صنفی شناخت کے حامل لوگوں سے جنسی تعلقات رکھتے ہیں اگرچہ کچھ صنف مخالف سے جنسی تعلقات رکھتے ہیں، کچھ دو جنس پرست تعلقات رکھتے ہیں یا کچھ کوئی بھی نہیں رکھتے (کنوارگی)۔[1] سروے کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ فی الحال 40٪ سے 60٪ کے درمیان میں ہم جنس پرست مرد اور 45٪ سے 80٪ کے درمیان میں ہم جنس پرست عورتیں رومانوی تعلقات میں شامل ہیں۔[78] سروے کے اعداد و شمار یہ بھی اشارہ کرتے ہیں کہ 18٪ سے 28٪ گے جوڑے اور 8٪ سے 21٪ لیسبئین جوڑے یو-ایس-اے میں اکٹھے دس یا دس سے زیادہ سال رہ چکے ہیں۔[78] مطالعات نے ہم جنس اور مخالف جنس جوڑوں کے تعلقات میں اطمینانیت اور وابستگی میں ایک دوسرے کو مساوی پایا ہے اور یہ کہ تعلقات کی وابستگی اور اطمینانیت میں جنسی رجحان کی نسبت، عمر اور صنف زیادہ قابل اعتماد پیشنگوئی کرتے ہیں۔[79][80] [81]

جوہانہ سیگوروآردوتیر، آئس لینڈ کی سابقہ وزیر اعظم، جدید دور کی سب سے پہلی علانیہ خکومتی سرپرست تھی۔ [82]

بند الماری سے باہر آنا 

باہر آنا (الماری سے ) ایک عبارت ہے جو کسی کے جنسی رجحان یا صنفی شناخت کے ظاہر کرنے کا حوالہ دیتا ہے اور مختلف نفسیاتی عمل یا دورانیہ کے طور پر بیان یا تجربہ کیا جاتا ہے۔[83] عموماً، باہر آنا (آشکار ہونا) تین مرحلوں میں بیان کیا جاتا ہے۔ پہلا مرحلہ "خود کو جاننا" ہے اور شعور و فہم تب ظہور ہوتا ہے جب کوئی ہم جنس تعلقات کے لیے کھلتا ہے۔[84] یہ اکثر اندر کا باہر آنا کے طور پر بیان ہوتا ہے۔ دوسرا مرحلہ دوسروں کے سامنے آشکار ہونے کا فیصلہ ہے۔ مثال کے طور پر خاندان، دوست یا کولیگز۔ تیسرا مرحلہ زیادہ تر ایک ایل جی بی ٹی فرد کے طور پر کھلے عام رہنے کا ہے۔[85] ریاست متحدہ میں آج کل لوگ اکثر ہائی اسکول یا کالج کی عمر کے دوران میں آشکارسازی کرتے ہیں۔ اس عمر میں وہ دوسروں کی مدد لینے پر بھروسا نہیں کرتے، خصوصاً جب ان کا جنسی رجحان معاشرے میں صحیح نہ سمجھا جاتا ہو۔ بعض اوقات ان کے اپنے گھر والوں کو بھی ان کے بارے میں پتا نہیں ہوتا۔

روزاریو، سکریمشو، ہنٹر اور برون کے مطابق (2006ء) "ہم جنس پرست افراد (LGB) کی جنسی شناخت کی نشو و نما ایک پچیدہ اور اکثر مشکل دہ عمل ہے۔ دیگر اقلیتی گروہوں کے ارکان کے برعکس (مثلاً، قومی اور نسلی اقلیتیں)، زیادہ تر ایل جی بی افراد دوسروں سے ملتی جلتی کمیونٹی میں تربیت نہیں پاتے کہ جن سے وہ اپنی شناخت کے بارے میں سیکھ سکیں اور جو اس شناخت کی حمایت کریں اور فروغ دیں۔ بلکہ، ایل جی بی (LGB) افراد اکثر ایسی کمیونیٹیز میں پروان چڑھتے ہیں جو یا تو جہالت کی حامل ہوتی ہیں یا ہم جنس پرستی کی کھلی دشمن ہوتی ہیں۔ [86]

آشکاریت خفگی میں رہنے والے ایک شخص کے جنسی رجحان کا لوگوں پہ عیاں کرنے کا عمل ہے۔[87] قابل ذکر سیاست دان، مشہور شخصیات، فوجی خدمت گزار لوگ اور اہل کلیسا، سیاسی یا اخلاقی عقائد کی طرف عداوت کے مقصد کو لے کر آشکار کیے جاتے رہے ہیں۔[88] بہت سے مبصرین نے اس عمل کی مکمل طور پر مخالفت کی ہے جبکہ بعض عوامی شخصیات کو آشکار کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جو دوسرے ہم جنس پرست لوگوں کو نقصان پہنچانے کے لیے اپنے مقام اور حیثیت کے اثرورسوخ کا استعمال کرتے ہیں۔ [89]

انائیس پارکر کھلے طور پر گے ہے اور سن 2010 تا 2016 ہیوسٹن کی مئیر تھی۔ [90]

لیسبیئن روایات اور جنسی رجحان کی آگاہی 

خواتین ہم جنس پرست اکثر اپنی جنسیت کو مرد ہم جنس پرستوں سے مختلف تجربہ کرتی ہیں اور علم الاسباب کے متعلق مختلف سمجھ بوجھ رکھتی ہیں جو مطالعوں سے اخذ کیے گئے تھے اور جن کا مرکزمحو زیادہ تر مرد تھے۔

1970ء کی دہائی میں یو-ایس میں شی رہائٹ کے کیے گئے ڈاک سروے میں لیسبئینز نے اپنے لیسبئین ہونے کی وجوہات ازخود بیان کیں۔ یہ عورتوں کی جنسیت پہ کیا گیا واحد اہم تحقیقی کام ہے جس نے 1953ء میں کنزی کے بعد تحقیق کیا کہ خواتین ہم جنس پرست ہونے کے ناطے کیا سمجھتی ہیں۔ اس تحقیق نے خواتین کے لیسبئین تعلقات اور جنسی رجحان کی عمومی سمجھ بوجھ کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ خواتین نے مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات پہ عورتوں کے ساتھ جنسی تعلقات کو ترجیح دینے کے لیے بہت سی وجوہات دیں بشمول خواتین دوسروں کی ضروریات کے بارے میں زیادہ حساس پائی گئی ہیں۔[91]

اپنے مطالعے کی تکمیل کے بعد ہائٹ نے اعتراف کیا کہ شاید کچھ خواتین نے لیسبئین کی سیاسی شناخت کو چنا ہے۔ سلطنت متحدہ کے ایک صحافی جولی بنڈل نے 2009ء میں اس بات کی تصدیق کرنے کی کوشش کی ہے کہ "سیاسی لیسبئین ازم اندرونی احساس بنانے کے لیے جاری ہے کیونکہ یہ اس خیال کو مضبوط بناتا ہے کہ جنسیت ایک چناو ہے اور ہم محض اپنے کرموسومز کی وجہ سے کسی ایک مخصوص تقدیر سے جڑے ہوئے نہیں ہیں۔"[92]

صنفی شناخت

بیسویں صدی کے ابتدائی لکھاری ہم جنس پرست رجحان کو عام طور پر پیدائشی سمجھتے تھے جو کسی شخص کی جنس سے منسلک ہے۔ مثال کے طور پر یہ سوچا جاتا تھا کہ عام طور پر زنانہ جسم شخص جو زنانہ جسم اشخاص کی طرف مائل ہے مردانہ خصوصیات رکھتا ہوگا اور برعکس۔[93] جبکہ یہ تفہیم جنسی تضاد کے طور پر اس وقت متنازع تھی اور بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں صنفی شناخت تیزی سے جنسی رجحان سے الگ ایک حقیقت کے طور پر دیکھی گئی۔

مخنث اور ہم سوُ جنسی لوگ مردوں، عورتوں یا دونوں کی طرف کشش رکھ سکتے ہیں، اگرچہ ان دو آبادیوں میں مختلف جنسی رجحانات کی عمومیت نہایت مختلف ہوتی ہے۔ ایک ہم جنس پرست فرد، مخالف جنس پرست یا دو جنس پرست شخص مردانہ، زنانہ یا دوصنفی ہو سکتا ہے، مزید برآں کہ گے اور لیسبئین جماعتوں کے کارکن اور حامی اب "صنف-مطابق مخالف جنس پرست" اور "صنف-غیر مطابق ہم جنس پرست" کو منفی دقیانوسی خیالات کے طور پر دیکھتے ہیں۔ تاہم، جے مائیکل بیلے اور کے جے ذکر کا مطالعہ گے مردوں اور لیسبئینز کی اکثریت کا اپنے بچپن کے عرصے کے دوران میں صنف-غیر مطابق ہونے کا بتاتا ہے۔[94]

آبادیات

جنسن کولینز اہم امریکی پیشہ ور کھیلوں کی لیگ میں پبلکلی پہلے فعال پیشہ ور کھلاڑی بنے جس نے خود کو گے کے طور پر آشکار کیا۔ [95]

گے اور لیسبئین آبادی کے حجم کے اعتبار سے قابل اعتماد اعداد و شمار عوامی پالیسی کو مطلع کرنے میں قدر کے حامل ہیں۔[96] مثال کے طور پر، آبادیات گھریلو شراکت داری کے فوائد اور اخراجات کی گنتی کرنے میں مدد کرسکتے ہیں، ہم جنس پرستوں کے گود لینے کو قانونی بنانے کے اثر سے اور یو-ایس فوج کی مت پوچھو مت بتاؤ کی حکمت عملی کے اثر سے ۔[96] مزید براں "گے اور لیسبئین آبادی کے حجم کا علم سماجی سائنسدانوں کو وسیع پیمانے پر اہم سوالات سمجھنے میں ممکنہ مدد ملے گی — عام نوعیت کے بارے میں سوالات برائے مزدوروں کی منڈی کا انتخاب، انسانی سرمائے کی جمع، گھریلو مہارت، امتیاز اور جغرافیائی مقام کے بارے میں فیصلوں کی۔[96]

ہم جنس پرستی ترویج کی پیمائش مشکلات پیش کرتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ پیمائش کے معیارات پر غور کیا جائے جن کا استعمال کیا جا رہا ہو، مثال کے طور پر، جنسی رجحان کی تعریف کے لیے انفصالی نقطہ اور لیے گئے وقت کا دورانیہ۔[12] بہت سے لوگ ہم جنس میلانات رکھنے کے باوجود خود کو گے یا بائیسیکشول شناخت کرانے پر مزاحم رہتے ہیں۔ تحقیق کو ایسی کچھ خصوصیات کو ضرور پیمائش کرنا چاہئیے جو جنسی رجحان کی تعریف میں آسکتی یا نہ آسکتی ہوں۔ ایسے لوگوں کی تعداد جو ہم جنس خواہشات رکھتے ہیں نسبتاً ایسے لوگوں سے زیادہ ہوگی جو ان خواہشات کی تکمیل بھی کرتے ہوں، جو ایسے لوگوں کی تعداد جو خود کو گے، لیسبئین یا بائیسکشول کہلواتے ہیں سے زیادہ ہوگی۔[96]

سنہ 1948ء اور 1953ء میں الفرڈ کنزی بتاتا ہے کہ تقریباً فاعل مردوں میں سے 46٪ نے اپنی بالغ زندگی کے دورانیہ میں دونوں جنس کے افراد کی طرف جنسی طور پر "رد عمل" کیا تھا اور 37٪ نے کم از کم ایک بار ہم جنس پرست تجربہ کیا تھا۔[97][98] کنزی کی تحقیق کے طریقہ کار کو جون ٹوکی نے تنقید کی کہ سہولتی نمونوں کا استعمال کیا گیا تھا بے ترتیبی نمونوں کا استعمال نہیں کیا گیا تھا۔[99][100] ایک مآبعد تحقیق نے نمونوں کی تنگ نظری ختم کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود یکساں نتائج اخذ ہوئے۔[101] سائمن لوے حوالہ دیتا ہے کہ یہ کنزی نتائج آبادیاتی مطالعہ کی تشریح کے لیے احتیاط کی ضرورت کی ایک مثال ہے، اس طرح ہو سکتا ہے وہ نہایت مختلف تعداد دیں جو اس منحصر کرتا ہے کہ ان کی راہنمائی میں کونسا معیار استعمال ہوا تھا، بجائے ثابت سائنسی طریقوں کے ۔[12]

اکتوبر 2014 میں ایپل کارپوریشن کے چیف ایگزیکٹو ٹم کُک Fortune 500 کمپنیوں کے مطابق پہلے چیف ایگزیکٹو بنے جو خود کو کھلے عام گے شناخت کراتے ہیں۔ [102]

اہم تحقیقات کے مطابق، 2٪ سے 11٪ لوگ اپنی زندگی میں ہم جنس جنسی ربط کی کوئی قسم رکھتے ہیں،[103][104][105][106][107][108][109][110][111][112] یہ شرح فیصد 16 سے 21٪ بڑھ جاتا ہے جب ہم جنس میلان اور کردار میں سے ایک یا دونوں کی طرف پایا جاتا ہو۔[112] سال 2006ء کی ایک تحقیق میں 20٪ جواب دہندگان نے نام چھپا کر کچھ ہم جنسی احساسات کا بتایا جبکہ صرف 2 سے 3٪ نے خود کو بطور ہم جنس پرست شناخت کروایا۔[113] سال 1992ء کی ایک تحقیق بتاتی ہے کہ برطانیہ میں 6.1٪ مرد ہم جنس پرست تجربہ رکھتے ہیں، جبکہ فرانس میں یہ تعداد 4.1٪ پتا لگائی گئی۔[114]

اپریل 2011 میں ریاست متحدہ میں دی ولیمز انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق، صرف 3.5٪ یا اندازً 9 ملین بالغ آبادی لیسبئین، گے یا بائیسیکشول ہے۔[115][116] ریاست متحدہ کی سنہ 2000ء کی مردم شماری کے مطابق اندازً 601209 ہم جنس غیر شادی شدہ شراکت دار اہل خانہ تھے۔[117]

سی ڈی سی کی 2013ء کی ایک تحقیق جس میں 34000 سے زیادہ امریکی انٹرویو کیے گئے تھے، لیسبئین، گے کی شرح فیصد 1.6٪ اور بائیسیکشول کی شرح فیصد 0.7٪ بتاتے ہیں۔[118]

رائے شماری

سال 2008ء کی ایک رائے شماری کے مطابق 13٪ برطانویوں نے کسی قسم کا ہم جنس جنسی رابطہ رکھا ہے جبکہ صرف 6٪ برطانوی خود کو ہم جنس پرست یا دو جنس پرست کے طور پر شناخت کراتے ہیں۔[119] اس کے برعکس، یوکے ادارہ برائے قومی شماریات (ONS) کا 2010ء کے ایک سروے میں 95٪ برطانوی خود کو مخالف جنس پرست شناخت کراتے ہیں، 1.5٪ برطانوی خود کو ہم جنس پرست یا دو جنس پرست اور آخری 3.5٪ نے غیر واضح جوابات دیے جیسا کہ "پتا نہیں"، "دیگر" یا سوال کا جواب نہیں دیا۔[98][120]

اکتوبر 2012 کے گیلپ رائے شماری ان لوگوں کے بارے میں جو خود کو ایل جی بی ٹی شناخت کراتے ہیں کی بے مثال آبادیاتی معلومات مہیا کیں، جو اس نتیجے پر پہنچی کہ ±1 کی غلطی کی گنجائش کے ساتھ یو-ایس کے تمام بالغان میں 3.4٪خود کو ایل جی بی ٹی کے طور پر شناخت کراتے ہیں۔[121] یہ ایل جی بی ٹی کی گنتی میں ملک کا سب سے بڑا مطالعہ ہے۔[122]

اکتوبر 2012 یو-ایس کے بالغان کی ایل جی بی ٹی شناخت پر گیلپ رائے شماری

عمر / جنسہاںنہیںنہیں پتا / جواب سے انکار
18 تا 296.4٪90.1٪3.5٪
30 تا 493.2٪93.6٪3.2٪
50 تا 642.6٪93.1٪4.3٪
65+1.9٪91.5٪6.5٪
18 تا 29

خواتین

8.3٪88.0٪3.8٪
18 تا 29

مرد

4.6٪92.1٪3.3٪

نفسیات 

نفسیات سب سے پہلا مضمون تھا جس نے ہم جنس پرست رجحان کو ایک جدا مظہر کے طور پر مطالعہ کیا۔ ہم جنس پرستی کو بیماری کے طور پر درجہ بند کرنے کی پہلی کوشش ناتجربہ کار یورپی ماہر جنسیات کی تحریک نے انیسویں صدی کے آخر میں کی تھی۔ سنہ 1886ء کے نامور ماہر جنسیات رچرڈ وون کرافٹ-ایبنگ نے اپنے حتمی کام 'جنسی نفسیات' میں دو سو دوسرے گمراہ کن جنسی اعمال کے ساتھ ہم جنس پرستی کو سرفہرست کیا۔ کرافٹ-ایبنگ نے تجویز دی کہ ہم جنس پرستی یا تو 'خلقی (دوران میں پیدائش) انعکاس' یا پھر 'اکتسابی انعکاس' کی وجہ سے ہے۔ انیسویں صدی کے آخری دو عشروں میں نفسیاتی اور طبی حلقوں میں ایک مختلف نقطۂ نظر غالب ہونا شروع ہوا، ایسے رویوں کا فیصلہ ایک شخص کی متعین اور نسبتاً مستحکم جنسی رجحان کی قسم کی طرف اشارہ تھا۔ انیسویں اور بیسیویں صدی کے اواخر میں ہم جنس پرستی کے امراضیاتی مقیاس کے معیار متعین کے گئے تھے۔

امریکی تنظیم برائے علم نفسیات، امریکی تنظیم برائے طب نفسیات اور قومی تنظیم برائے سماجی کارکنان کہتے ہیں:

سنہ 1952ء میں امریکی تنظیم برائے طب نفسیات نے اپنا پہلا 'دماغی بیماریوں کا تشخیصی اور شماریاتی رسالہ' (DSM) شائع کیا۔ تاہم لگ بھگ فوری طور پر اس درجہ بندی کو قومی ادارہ برائے ذہنی صحت کے چندہ سے تنقیدی جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ مطالعہ اور مابعد تحقیق ہم جنس پرستی کو بطور نارملٹی اور صحت مندانہ جنسی رجحان کی بجائے بیماری یا ابنارملٹی کے بارے میں کوئی عملی اور سائنسی بنیاد پیش کرنے میں مسلسل ناکام رہی۔ اس فراہم کردہ تحقیق کے نتیجے میں طبی پیشہ ور، ذہنی صحت اور سماجی و معاشرتی سائنس اس نتیجہ پر پہنچی کہ ہم جنس پرستی کو دماغی عوارض کے طور پر درجہ بند کرنا درست نہیں ہے اور یہ کہ DSM کی درجہ بندی غیر جانچ شدہ مفروضوں کی عکاسی کرتی ہے جن کی بنیاد کبھی کے رائج معاشرتی معیار تھے اور ان مطبی تاثرات کے غیر مثالی نمونوں پہ مشتمل مریضوں کی جو معالجوں اور افراد کی تلاش میں ہیں اور جن کا چال چلن انھیں مجرمانہ انصافی نظام میں لے آیا ہے۔

سائنسی ثبوتوں کی معرفت میں[123] امریکی تنظیم برائے طب نفسیات نے ہم جنس پرستی کو 1973ء کی DSM سے خارج کر دیا، یہ کہتے ہوئے کہ "ہم جنس پرستی بینادی طور پر عدالتی رائے، استحکام، اعتمادیت یا عمومی سماجی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے خلل میں ملوث نہیں ہے۔" سائنسی حقائق پہ بخوبی جائزہ لینے کے بعد امریکی تنظیم برائے علم نفسیات نے سنہ 1975ء میں پہلے والی نسشت کو اپنائے رکھا اور تمام ذہنی صحت کے پیشہ وروں پہ زور دیا کہ "دماغی بیماری کے کلنک کو ختم کرنے میں راہنمائی کریں جو طویل عرصے سے ہم جنس پرست رجحانات کے ساتھ جوڑا جاتا رہا ہے۔" قومی تنظیم برائے سماجی کارکنان بھی یہی حکمت عملی اپنا چکی ہے۔ 

اسی طرح ذہنی صحت کے ماہرین اور محققین عرصہ دراز سے تسلیم کرچکے ہیں کہ ہم جنس پرست شخص کو خوشگوار، صحت مند اور سیر حاصل زندگی گزارنے میں کوئی جبلی یا فطری مزاحمت دکھائی نہیں دیتی اور ہم جنس پرست مرد اور عورتوں کی بھاری اکثریت سماجی اداروں اور باہمی تعلقات کی ہر صف میں اچھا کام کرتے ہیں۔ [2]

[7] تحقیق اور مطبی ادب کی طویل مدتی اتفاق رائے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم جنس جنسی اور رومانوی کشش، احساسات اور رویے انسانی جنسیت کی نارمل اور مثبت تغیرات ہیں۔ [124] اب تحقیقاتی ثبوت کا ایک بڑا حصہ ہے جس سے یہ اشارہ ہے کہ گے، لیسبئین یا بائیسیکشوول ہونا عام ذہنی صحت اور معاشرتی ہم آہنگی کے مطابق ہے۔[7] اب تحقیقاتی ثبوت کا ایک بڑا حصہ ہے جس سے یہ ظاہر ہے کہ گے، لیسبئین یا بائیسیکشوول ہونا عام ذہنی صحت اور معاشرتی ہم آہنگی کے مطابق ہے۔ عالمی ادارہ صحت  نے 1977ء کے ICD-9 میں ہم جنس پرستی کو ذہنی بیماری سرفہرست کیا لیکن 17 مئی 1990 کو عالم ادارہ صحت کی ترتالیسیویں اسمبلی کی تصدیق سے اسے ICD-10 سے ہٹا دیا گیا، [125][126] DSM-II کی طرح ICD-10 نے انائی-ناپزیر جنسی رجحان کا فہرست میں اضافہ کیا جو ایسے لوگوں کا حوالہ ہے جو اپنے نفسیات اور رویہ کی خرابی کی وجہ سے اپنی صنفی شناختوں یا جنسی رجحانات کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ چینی سوسائٹی آف سائیکیٹری نے سنہ 2001ء میں ایسوسی ایشن کے پانچ سالہ مطالعہ کے بعد ہم جنس پرستی کو دماغی عوارض کی درجہ بندی میں سے ختم کر دیا۔[127] رائل کالج آف سائیکیٹرسٹس کے مطابق "یہ بدقسمت تاریخ صاف طور پر دکھائی دیتی ہے کہ پسماندگی کیسے مخصوص شخصی وصف (اس کیس میں ہم جنس پرستی) کے حامل لوگوں کے ایک گروہ کو نقصان دہ طبی عمل اور معاشرتی تفریق کے لیے بنیاد کے راستہ پہ لے جا سکتی ہے۔[7] تحقیقاتی ثبوت کا ایک بڑا حصہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم جنس پرست مرد یا عورت ہونا نارمل ذہنی صحت اور معاشرتی استحکام سے مطابقت رکھتا ہے۔ تاہم معاشرے میں تفریق کا تجربہ اور دوستوں، خاندان اور دوسرے لوگوں سے جیسے آجروں سے تردید اور ناپسندی کا مطلب ہے کہ ہم جنس پرست (LGB) لوگ ذہنی صحت کی مشکلات اور مادے کے غلط استعمال کے مسائل کے متوقع پھیلاو سے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ اگرچہ یو-ایس-اے میں ایسے قدامت پسند سیاسی گروہوں کی طرف سے دعوے آچکے ہیں کہ ہم جنس پرستی میں ذہنی صحت کی مشکلات کی زیادتی ازخود ذہنی عوارض کی تصدیق ہے، لیکن ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے جو اس جیسے دعوی کی کسی بھی طرح سے تصدیق کرسکے۔"[128]

زیادہ تر ہم جنس پرست مرد اور عورتیں جو نفسیاتی معالجہ کراتے ہیں وہ ایسا انہی وجوہات پہ کرتے ہیں جو مخالف جنس پرست لوگوں کو ہوتی ہیں (دباؤ، رشتوں میں مشکلات، کام کرنے والی جگہ یا سماج سے مطابقت، وغیرہ)؛ ہو سکتا ہے ان کا جنسی رجحان ان کے مسائل اور علاج میں ابتدائی، حادثاتی یا کسی بھی اہمیت کا حامل نہ ہو۔ مسئلہ جو بھی ہو لیکن نفسیاتی معالجہ میں ہم جنس پرست مریضوں کے ساتھ گے مخالف تعصب کا شدید خدشہ پایا گیا ہے۔[129] اس شعبہ میں نفسیاتی تحقیق متعصب رویوں اور افعال ("ہوموفوبک") کی روک تھام اور ایل جی بی ٹی (LGBT) حقوق کی تحریک سے مُتعلقہ رہی ہے۔ [130]

مثبت نفسیاتی معالجہ کا موزوں استعمال مندرجہ ذیل حقائق پر مبنی ہے: [124]

ہم-جنس جنسی کشش، رویہ اور رجحانات بنیادی طور پر فطری ہیں اور انسانی جنسیت کی مثبت اور مختلف پہلو ہیں؛ دوسرے الفاظ میں وہ ذہنی یا نشو و نما کے عوارض کی نشان دہی نہیں ہیں۔

ہم جنس پرست اور دو جنس پرست رسوا کیے گئے ہیں اور یہ بدنامی زندگی کے دورانیہ بھر میں مختلف منفی نتائج (مثلاً: اقلیتی دباؤ) رکھ سکتی ہے (D'Augelli & Patterson, 1995; DiPlacido, 1998; Herek & Garnets, 2007; Meyer, 1995, 2003)۔

ہم-جنس جنسی میلان اور رویہ جنسی رجحانات اور جنسی رجحان کی شناختوں کی مختلف اقسام کے تناظر میں وقوع پزیر ہو سکتی ہے (Diamond, 2006; Hoburg et al.، 2004; Rust, 1996; Savin-Williams, 2005)۔

گے مرد، لیسبئینز اور بائیسیکشوول افراد اطمینان بخش زندگی گزار سکتے ہیں نیز مستحکم، قابل اعتماد رشتے اور خاندان تشکیل دے سکتے ہیں جو بنیادی پہلوؤں سے مخالف جنس پرست رشتوں کے مساوی ہوتے ہیں۔ (APA, 2005c; Kurdek, 2001, 2003, 2004; Peplau & Fingerhut, 2007)

ایسا کوئی عملی مطالعہ یا باہمی جائزہ لی گئی تحقیق نہیں ہے جو ہم جنس جنسی رجحانات کے نظریات کو غیر افعالیت یا صدموں جیسے گروہ سے منسوب کرنے کی حمایت کرے۔ (Bell et al.، 1981; Bene, 1965; Freund & Blanchard, 1983; Freund & Pinkava, 1961; Hooker, 1969; McCord et al.، 1962; D. K. Peters & Cantrell, 1991; Siegelman, 1974, 1981; Townes et al.، 1976)۔

اسباب 

حیاتیاتی بمقابلہ ماحولیاتی فیصلہ کن عوامل 

اگرچہ سائنس دان جنسی رجحان کے سبب کے لیے حیاتیاتی ماڈلز کی تائید کرتے ہیں،[3] لیکن وہ اس بات کا یقین نہیں کرتے کہ یہ کسی ایک عنصر کا نتیجہ ہے۔ وہ عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ اسے حیاتیاتی اور ماحولیاتی عوامل متعین کرتے ہیں؛ ان کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگوں کا جنسی رجحان ابتدائی عمر میں متعین ہوتا ہے اور جنسی رجحان کی نشو و نما میں فطرت اور جبلت کا پیچیدہ تعامل شامل ہے۔[1][4][5] حیاتیاتی عوامل جینیاتی اور ہارمونی ہیں، یہ دونوں دماغ کی جنین کی نشو و نما پر اثرانداز ہوتے ہیں، جبکہ ماحولیاتی عوامل میں معاشرتی، نفسیاتی یا ابتدائی رحم کا ماحول شامل ہے۔[1][3][4] عام طور پر سائنس دان اس بات کا یقین کرتے ہیں کہ جنسی رجحان ایک موضوع الانتخاب نہیں ہے۔[4] [131]

امریکی اکادمی برائے طب اطفال نے 2004ء میں طب اطفال میں کہا: 

ایسا کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے کہ خلاف معمول اولاد کی تربیت، جنسی بدعنوانی یا دیگر زندگی کے دیگر برے واقعات جنسی رجحان پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ موجودہ علم یہ تجویز کرتا ہے کہ جنسی رجحان عموماً ابتدائی بچپن کے دوران میں قائم ہوتا ہے۔[3][132]

امریکی تنظیم برائے علم نفسیات، امریکی تنظیم برائے طب نفسیات اور قومی تنظیم برائے سماجی کارکنان نے 2006ء میں کہا:

فی الحال ایک فرد کو مخالف جنس پرست، ہم جنس پرست اور دو جنس پرست بنانے والے مخصوص عوامل کے بارے میں کوئی سائنسی اتفاق رائے نہیں ہے بشمول حیاتیاتی، نفسیاتی یا والدین کے جنسی رجحان کے معاشرتی اثرات۔ تاہم دستیاب شدہ ثبوت بتاتے ہیں کہ لیسبئین اور گے بالغان کی بھاری اکثریت کی نشو و نما مخالف جنس پرست والدین نے کی تھی اور جن بچوں کی پرورش لیسبئین اور گے والدین نے کی ان میں سے بھاری اکثریت مخالف جنس پرست کے طور پر جوان ہوئی ہے۔[1]  

ہم جنس پرستی کے اسباب پہ ہونے والی تحقیق نے سیاسی اور سماجی بحث میں کردار ادا کیا ہے اور جینیاتی پروفائلنگ اور پیدائش سے قبل جانچ کے بارے میں خدشات کو بڑھایا ہے۔[133] [134]

متعدد کوششوں کے باوجود کوئی 'گے جین' (gay gene) شناخت نہیں ہو سکا۔ تاہم جینیاتی بنیاد پہ قائم ہم جنس پرستی پہ اچھا خاصا ثبوت موجود ہے خصوصاً مردوں میں جڑواں لوگوں کی تحقیق میں یہ سامنے آیا ہے کہ کرموسوم 8 کے کچھ حصوں اور Xq28 جین کے ساتھ X ایکس کروموسوم میں کچھ تعلق پایا گیا ہے۔[135] حال ہی میں بالاوراثیات (epigenetics) کو جنسی رجحان میں شامل کیا گیا ہے۔ لونیّت (genome) پانچ خِطوں میں میثائلیت (methylation) طرز جنسی رجحان سے بہت قریبی طور پہ منسلک ہوتی نظر آتی ہے۔ میثائلیت طرز (methylation pattern) نے ایک اختیاری گروہ کے جنسی رجحان کی تقریباً 70٪ درستی کی پیشن گوئی کی ہے۔ [136]

ارتقائی نقطہ نظر

سال 2008ء کے ایک مطالعہ کے مصنفین نے کہا ہے کہ "اس بارے میں کافی ثوابت موجود ہیں کہ انسانی جنسی رجحان جینیاتی طور پہ اثرانداز ہے، پر یہ معلوم نہیں ہے کیسے ہم جنسیت تولیدی کامیابی میں کمی کرتی ہے اور آبادی کے اندر نسبتاً زیادہ تعدد پہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔" انھوں نے مفروضہ قائم کیا ہے کہ "دریں اثناء ہم جنسیت کی طرف پہلے سے راغِب جینز ہم جنسیت کی تولیدی کامیابی کو تخفیف کرتے ہیں، وہ مخالف جنسیت کو حصول بخش سکتے ہیں جو ان پہ مشتمل ہوتے ہیں۔" ان کے نتائج تجویز کرتے ہیں کہ "ہم جنسیت کی طرف پہلے سے راغِب جینز جفتی برتری میں مخالف جنسیت کو مرحمت بخش سکتے ہیں، جس سے آبادی میں ہم جنسیت کے ارتقائی اور برقرار حیثیت کی وضاحت میں مدد مل سکتی ہے۔"[137] سال 2009ء کے ایک مطالعہ نے بھی عورتوں کی زرخیزی میں خاطر خواہ اضافہ کو تجویز کیا ہے جو مادری لڑی (لیکن وہ نہیں جو پدرانہ لڑی سے ہم رشتہ ہیں) کے ہم جنس پرست لوگوں سے ہم رشتہ ہوتی ہیں۔[138]

بیلے اور زک کی ایک جائزی دستاویز نے جانوروں میں پائے جانے والے ہم جنس جنسی رویوں کی تحقیقات کو دیکھتے ہوئے چیلنج کیا کہ اس طرح کے رویے بالیدی کامیابی کو کم کرتے ہیں۔ اس بارے میں بیشتر مفروضات کا حوالہ دیا گیا ہے کہ کیسے ہم جنس جنسی رویہ ڈھَل سکتا ہے ؛ یہ مفروضات مختلف الانواع کے درمیان میں بہت زیادہ متفرق ہیں۔ بیلے اور زک یہ بھی تجویز کرتے ہیں کہ مستقبل کی تحقیق کو محض ایسے رویوں کے مآخذ کی بجائے ہم جنسی رویوں کے ارتقائی نتائج میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔[139]

جنسی رجحان تبدیلی کی کوششیں

ایسی موزوں سائنسی تحقیق نہیں ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ ہو کہ جنسی رجحان تبدیلی کی کوششیں ایک شخص کے جنسی رجحان کو تبدیل کرتی ہیں۔ ایسی کوششیں ایک طرف ایمان کی بنیاد پہ قائم کچھ سائنسی تنظیموں یا پیشہ وروں کی قدروں اور دوسری طرف ایل جی بی ٹی حقوق پہ قائم تنظیموں، ماہرین اور سائنسی تنظیموں اور دیگر مذہبی تنظیموں کی طرف سے منعقد اقدار کے درمیان میں کشیدگی کے باعث متضاد رہی ہیں۔[11] رویوں اور سماجی علوم اور صحت اور ذہنی صحت کے ماہرین کی طویل مدتی اتفاق رائے یہ ہے کہ ہم جنسیت بنیادی طور پر انسانی جنسی رجحان کا نارمل اور مثبت پہلو ہے اور اس وجہ سے ایک ذہنی عارضہ نہیں ہے۔[11] امریکی تنظیم برائے علم نفسیات کا کہنا ہے "بیشتر لوگ اپنے جنسی رجحان کے انتخاب بارے تھوڑا یا کوئی احساس تجربہ نہیں کرتے۔"[140] کچھ افراد اور گروہ ہم جنسیت کے تصور کو نشو و نما میں خرابی یا روحانی اور اخلاقی کمزوریوں کی علامتوں سے بڑھاوا دیتے ہیں اور بحث کر چکے ہیں کہ جنسی رجحان تبدیلی کی کوششیں بشمول نفسیاتی معالجہ اور مذہبی کوششیں ہم جنسی احساسات اور رویوں کو تبدیل کر سکتی ہیں۔ ایسے بہت سے افراد اور گروہ وسیع سیاق و سباق کی حامل تعصب پرست مذہبی سیاسی تحریکوں کے ساتھ ثابت قدمی کے ساتھ سامنے آتے ہیں جنھوں نے ہم جنسیت کی کلنک کے طور پر سیاسی اور مذہبی میدانوں میں حمایت کی ہے۔[11]

کسی بھی اہم ذہنی صحت کی تنظیم کے ماہرین نے جنسی رجحان کو تبدیل کرنے کی کوششوں کو منظور نہیں کیا اور فی الحقیقت ان سب نے ان حکمت عملیوں کے بیانات کو اپنایا ہے جو پیشہ وروں اور عوام کو ان علاجوں کے بارے میں جن کا مطلب جنسی رجحان کو بدلنا ہے سے خبردار کرتی ہیں۔ ان میں یو-ایس-اے سے امریکی تنظیم برائے طب نفسیات، امریکی تنظیم برائے علم نفسیات، امریکی تنظیم برائے مشاورت، قومی تنظیم برائے سماجی کارکنان،[141] ان کے علاوہ رائل کالج آف سائیکیٹرسٹس،[142] اور آسٹریلوی سائیکالوجیکل سوسائٹی[143] شامل ہیں۔ امریکی تنظیم برائے نفسیاتی علوم اور رائل کالج آف سائیکیٹرسٹس نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ NARTH کی طرف سے اختیار شدہ بیانیہ کو سائنسی حمایت حاصل نہیں ہے جو ایسا ماحول تخلیق کرتی ہیں جس میں تعصب اور امتیازی سلوک پھل پھول سکتا ہے۔[142][144]

امریکی تنظیم برائے علم نفسیات کا کہنا ہے کہ "جنسی رجحان چناؤ نہیں ہے جو اپنی مرضی سے تبدیل ہو سکے اور جنسی رجحان ماحولیاتی، ادراکی اور حیاتیاتی عوامل کے پیچیدہ ہم آہنگی کا متحمل نتیجہ ہے۔۔۔ یہ ابتدائی عمر میں تشکیل پاتا ہے۔۔۔ [اور ثبوت تجویز کرتے ہیں کہ] حیاتیاتی بشمول جینیاتی یا پیدائشی ہارمونی عوامل ایک شخص کی جنسیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔[4]" ان کا کہنا ہے کہ "جنسی رجحان کی شناخت — نہ کہ جنسی رجحان — بظاہر نفسیاتی معالجہ، مددگار گروہوں اور زندگی کے واقعات کے ذریعے تبدیل ہوتے ہیں۔"[11] امریکی تنظیم برائے طب نفسیات کا کہنا ہے "افراد اپنی زندگیوں میں مختلف مقام میں جان سکتے ہیں کہ وہ مخالف جنس پسند، گے، لیسبئین یا دوجنس پرست ہیں" اور "طبی نفسیاتی معالجہ کی مخالفت کرتے ہیں، جیسا کہ 'مرمتی' یا 'تبدیلی' کے معالجے جس کی بنیاد اس تصور پہ ہے کہ ہم جنسیت ایک پیدائشی ذہنی عارضہ ہے یا اس تصور سے قبل کی جانے والی بنیاد پہ ہے کہ مریض/مریضہ کو ہم جنسی رجحان کو تبدیل کرلینا چاہئیے۔" لیکن وہ مثبت گے نفسیاتی معالجہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔[73]

امریکی تنظیم برائے نفسیات "جنسی رجحان کی تبدیلی کی کوششوں کو فروغ دینے اور جنسی رجحان میں تبدیلی کی یقین دہانی کرنے کی افادیت کے بارے میں غلط نمائندگی سے اجتناب کرنے والے ذہنی صحت کے پیشہ وروں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، جو اپنی یا دوسروں کے جنسی رجحان کی بارے میں پریشان افراد کو صلاح کاری کی خدمات سر انجام دیتے ہوئے اور نتائج اخذ کرتے ہیں کہ جنسی رجحان تبدیلی کی کوششوں میں ملوث شرکاء کی اطلاع کے مطابق فوائد اس صورت میں حاصل کیے جا سکتے ہیں اگر وہ کوششیں جنسی رجحان کی تبدیلی نہ ہو۔[11]

والدین

سائنسی تحقیق عام طور پر مسلسل یہ ظاہر کرتی ہے کہ لیسبئین اور گے والدین مخالف جنس پسند والدین کی طرح کامل اور مستعد ہیں اور ان کے بچے مخالف جنس پرست والدین کی پرورش میں پالے گئے بچوں کی طرح نفسیاتی لحاظ سے صحت مند اور بہتر ہم آہنگ ہیں۔[145][146][147] اس کے برعکس سائنسی تحقیقات کے جائزوں میں کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔[2][148][149][150][151]

ایک جائزی مطالعہ تجویز کرتا ہے کہ لیسبئن یا والدین کے بچے کم روایتی صنفی قسم کے ہوتے ہیں ہم جنسی شہوانی تعلقات کی طرف غالباً زیادہ کھلے ہوتے ہیں، (یو-ایس میں 80٪ ہم جنس جوڑوں کی پرورش میں بچے  گود لیے گئے نہیں ہیں اور زیادہ تر مخالف جنس شادی کا نتیجہ ہیں)[152] قدرے جینیاتی اور خاندانی سماجیت کے عمل کے باعث (بچے نسبتاً زیادہ رواداراسکول، ہمسایگی اور سماجی سیاق و سباق میں بڑھتے ہیں، جو کم ہیٹروسیکسٹ ہوتے ہیں)، حتی کہ ہم جنس جوڑوں کے پالے ہوئے بچوں کی اکثریت خود کو مخالف جنس پرست کے طور پر شناخت کراتی ہے۔[153] امریکی تنظیم برائے نفسیات کے لیے 2005ء میں چارلٹ جے پیٹرسن کی طرف سے کیے گئے ایک جائزے میں بتایا گیا ہے کہ دستیاب اعداد و شمار گے اور لیسبئن والدین کے بچوں میں ہم جنسیت کی زیادہ شرح تجویز نہیں کرتے۔[154] ایک مطالعہ تجویز کرتا ہے کہ گے اور لیسبئن والدین کے بچے غالباً غیر مخالف جنس پرست شناختوں کو زیادہ جلدی اپنالیتے ہیں، خاص کر لیسبئن والدین کی بیٹیاں (بین النسل منتقلی کچھ بیٹوں کے تجزیہ میں اہم نہیں تھی)۔ [155]

صحت

جسمانی

"مرد کا مرد سے جنسی عمل" (MSM) اور "عورت کا عورت سے جنسی عمل" (WSW) جیسی اصطلاحات ایسے لوگوں کا حوالے دینے کے لیے ہیں جو جنسی عمل میں دوسری جنس کے لوگوں کے ساتھ شامل ہوں اس بات کے قطع نظر کہ وہ خود کو کیسے شناخت کراتے ہیں — جیسا کہ بہت سے سماجی شناختیں جیسے گے، لیسبئن اور بائیسیکشول کو قبول کرنا نہیں چاہتے۔[156][157][158][159][160] یہ اصطلاحات اکثر طبی ادبیات اور سماجی تحقیق میں جنسی ذاتی شناخت پہ غور کرنے کے مسئلے کی ضرورت کے بغیر تفصیل دینے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ تاہم یہ اصطلاحات دقت طلب دیکھی جاتی ہیں کیونکہ یہ "جنسیت کی سماجی جہتوں کو غیرواضع کرتی ہیں؛ ذاتی عنوانیت گے، لیسبئن، بائیسیکشول کو پست کرتی ہیں؛ اور حسب ضرورت جنسی رویوں میں تغیر کی تفصیل نہیں بتاتی۔"[161]  ایم-ایس-ایم اور ڈبلیو-ایس-ڈبلیو مختلف اقسام کی جوہات کے ساتھ چند اہم یقین لائق جنسی تسکین، یگانگت اور باہمی گرفت کے لیے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جنسی طور پر فعال ہیں۔ ان کے فوائد کے برعکس جنسی رویہ بیماری کا ایک خط کامل ہو سکتا ہے۔ محفوظ جنسی عمل کم نقصان دہ فلسفہ سے متعلقہ ہے۔[162] ریاست متحدہ فی الوقت ان مردوں کو جو مردوں سے جنسی عمل کرتے ہیں خون عطیہ کرنے سے ممانعت کرتا ہے "کیونکہ وہ ایک گروہ کی حیثیت سے ایچ-آئی-وی کے لیے بڑھتا ہوا خطرہ ہیں، ہیپاٹائٹس-بی اور بے شک دوسرے متعددی مرض جو تبادلہ خون سے منتقل ہو سکتے ہیں"۔ بہت سے یورپی ممالک میں بھی یہی پابندی ہے۔ [163]

صحت عامہ

یہ محفوظ آور جنسی تجاویز پبلک ہیلتھ آفیشلز سے متفق شدہ ہیں جو جنسی طور پر قابل منتقل متعددی بیماریوں سے اجتناب برتنے کے لیے ان عورتوں کے لیے ہیں جو عورتوں سے سیکس کرتی ہیں۔

ساتھی کے حیض کے خون اور کسی بھی اعضائے مخصوصہ پر زخم سے ربط پر اجتناب کریں۔

ایسے جنسی کھلونے جو ایک سے زیادہ لوگوں کی فرج اور مقعد میں دخول کے لیے استعمال ہوتے ہیں ان کو ہر شخص کے لیے ہر بار نئے کنڈوم کے ساتھ ڈھانکیں اور ہر شخص کے لیے علاحدہ کھلونوں کا استعمال کرنے پر غور کریں۔

دہنی جماع کے دوران میں کوئی رکاوٹ استعمال کریں (مثال کے طور پر، لیٹیکس شیٹ، ڈینٹل ڈیم، کٹ اوپن کنڈوم، پلاسٹک ریپ وغیرہ)۔

کسی بھی مینول سیکس کے لیے وینیل دستانوں یا لیٹکس کا استعمال کریں جس سے خون بہنے کا ڈر ہو۔ [164]

یہ محفوظ آور جنسی تجاویز پبلک ہیلتھ آفیشلز سے متفق شدہ ہیں جو جنسی طور پر قابل منتقل متعددی بیماریوں سے اجتناب برتنے کے لیے ان مردوں کے لیے ہیں جو مردوں سے سیکس کرتے ہیں۔

ساتھی کے جسم کی کسی بھی قسم کی رطوبتوں اور کسی بھی اعضائے مخصوصہ پر زخم سے ربط پر اجتناب کریں۔

دہنی یا دبری جماع کے دوران میں رکاوٹ استعمال کریں (مثال کے طور پر، لیٹیکس شیٹ، ڈینٹل ڈیم، کٹ اوپن کنڈوم)۔

ایسے جنسی کھلونے جو ایک سے زیادہ لوگوں میں دخول کے لیے استعمال ہوتے ہیں ان کو ہر شخص کے لیے ہر بار نئے کنڈوم کے ساتھ ڈھانکیں اور ہر شخص کے لیے علاحدہ کھلونوں کا استعمال کرنے پر غور کریں۔

کسی بھی مینول سیکس کے لیے وینیل دستانوں یا لیٹکس کا استعمال کریں جس سے خون بہنے کا ڈر ہو۔ [165][166]

ذہنی

طبی ادب میں جب یہ پہلی بار بیان کیا گیا تھا تب ہم جنسیت کے بنیادی اسباب کو موروثی نفسیاتی عارضہ کی نظر سے تلاش کیا جاتا تھا۔ ذہنی صحت اور ہم جنس پرست مریضوں پہ زیادہ ادب ان کے ڈپریشن، منشیات کے غلط استعمال اور خودکشی پہ مرکوز تھا۔ حالانکہ یہ مسائل ان لوگوں میں بھی موجود ہیں جو غیر ہم جنس پرست ہیں، ان لوگوں کی وجوہات کی بحث، ہم جنس پرستی کی سنہ 1973ء میں تشخیصی اور شماریاتی رسالہ (DSM) سے برطرفی سے تبدیل کرگئی۔ اس کی بجائے، معاشرتی مقاطعہ، قانونی تفریق، بین الاندرونی منفی دقیانوس خیالات اور محدود تائیدی بناوٹیں ہم جنس پرست لوگوں کی مغربی معاشروں میں عوامل کے سامنے کو ظاہر کرتے ہیں جو بعض اوقات ان کی ذہنی صحت کو بری طرح سے متاثر کرتے ہیں۔[167] رسوائی، تعصب اور تفریق ہم جنس پرستی کی طرف منفی معاشرتی رویوں کیے نتیجے میں بنتے ہیں جو گے مردوں، لیسبئن اور بائسیکشولز کے باہم ان کے مخالف جنس پرست ہم چشم کے مقابلے میں زیادہ ترویج پاتے ہیں۔[168] ثبوت ظاہر کرتے ہیں کہ گذشتہ کچھ عشروں میں ان رویوں کی آزاد خیالی نوجوان ایل جی بی ٹی لوگوں کے درمیان میں ذہنی صحت کے خطرات کی کمی میں شریک ہے۔ [169]

گے اور لیسبئین نوجوان نسل

گے اور لیسبئین نوجوان نسل خودکشی، منشیات کے استعمال، اسکول میں مسائل اور تنہائی کے بڑھتے ہوئے خطرے کو جھیلتی ہے، ایک "دشمن اور مذمتی ماحول، زبانی اور جسمانی بدسلوکی، گھروالوں اور دوستوں کی طرف سے انکار اور علیحدگی" کی وجہ سے ۔[170] مزید برآں ایل جی بی ٹی نوجوان نسل کی طرف سے والدین یا سرپرستوں کی طرف سے سرذد کی جانے والی نفسیاتی، جسمانی اور جنسی بدسلوکی کی زیادہ اطلاع ملتی ہے۔ اس تفاوت کے لیے تجویز کردہ وجوہات یہ ہیں کہ (1) ایل جی بی ٹی نوجوان خاص کر اپنی ادراکی جنسی رجحان یا صنف-غیر مطابق وضع کی بنیاد پر ہدف بنائے جاتے ہیں اور (2) جنسی اقلیتی حیثیت سے جڑے ہوئے خطرے کے عوامل بشمول امتیازی سلوک، پوشیدگی اور گھروالوں سے عدم قبولیت۔۔۔ ان رویون کی طرف لے جا سکتے ہیں جو قربانی یا انتقام کے خطروں سے منسلک ہیں، مثال کے طور پر، منشیات کا غلط استعمال، زیادہ پارٹنرز کے ساتھ جنسی عمل یا ٹین ایجرز کا گھر سے بھاگ جانا۔[171] سال 2008ء کا ایک مطالعہ ایل جی بی نوجوانوں کے والدین کی طرف سے ٹھکرائے رویوں کی مقدار کے درمیان میں ارتباط دکھاتا ہے اور ٹین ایجرز میں منفی صحت کے مسائل کا مطالعہ کرتا ہے۔ 

خاندان کی استرداد کی بلند شرح نہایت برے صحت کے نتائج کے ساتھ نمایاں طور پر مشلک تھی۔ طاق تناسب کی بنیاد پر لیسبئین، گے اور بائیسیکشول بالغ نوجوان جو بلوغت کے دوران میں خاندانی ناقبولیت کی بلند سطح بیان کرتے ہیں، 8.4 گنا خودکشی کی کوشش کی زیادہ اطلاع دیتے ہیں، 5.9 گنا ڈپریشن کی بلند سطح کی، 3.4 گنا غیر قانونی منشیات کے استعمال کی اور 3.4 گنا زیادہ غیر محفوظ جنسی اختلاط کی، نسبتاً ان ہم سروں کے خاندانوں کے جو خاندانی استرداد کم ہونے یا نہ ہونے کی اطلاع دیتے ہیں۔ [172]

بڑے شہروں میں بحرانی مراکز اور انٹرنیٹ پر معلوماتی سائٹس نے نوجوانوں اور جوانوں کی مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔[173] منصوبہ ٹریور ہم جنسی نوجوانوں کی خودکشی کی روک تھام کی ہیلپ لائن ہے، جو 1998ء میں  HBO پر نشر کی جانے والی اکادمی ایوارڈ یافتہ مختصر فلم ٹریور کے مابعد قائم کی گئی تھی۔ [174]

قانون اور سیاست

قانونی حیثیت

زیادہ تر ممالک مقامی طور پر رضامندی دینے کی عمر سے اوپر کے غیر رشتہ دار اشخاص کے درمیان میں جنسی عمل پر ممانعت نہیں کرتے۔ کچھ حکومتی دارئرہ اختیارات ہم جنس کنبے کی ساخت کے لیے شناختی حقوق، تحفظات اور استحقاق کی مزید قدر افزائی کرتے ہیں، بشمول شادی کے۔ کچھ ملکوں کے حکم ہیں کہ تمام افراد خود کو مخالف جنس پرست تعلقات میں محدود رکھیں؛ کچھ حکومتی دائرہ اختیارات میں ہم جنسی سرگرمی غیر قانونی ہے۔ مجرم کچھ قدامت پسند مسلم علاقوں جیسا کہ ایران اور نائیجیریا کے کچھ حصوں میں موت کی سزا کا سامنا کر سکتے ہیں۔ تاہم بسا اوقات سرکاری حکمت عملی اور حقیقی دنیا کے نفاذ کے درمیان میں نمایاں اختلافات پائے جاتے ہیں۔

اگرچہ ہم جنس پرست اعمال مغربی دنیا میں غیر مجرمانہ تھے جیسا کہ پولینڈ 1932، ڈنمارک 1933، سویڈن 1944 اور متحدہ سلطنت 1967 میں، یہ 1970 کا نصف تک ہم جنس پرست برادری نے پہلے پہل کچھ ترقی پزیر ممالک میں شہری حقوق حاصل کرنا شروع کردیے تھے۔ سنہ 1973ء میں ایک اہم موڑ آ پہنچا تھا جب امریکی تنظیم برائے طب نفسیات نے DSM سے ہم جنس پرستی کو ختم کر دیا، اس طرح ہم جنس پرستی کی بطور کلینیکل ذہنی عارضہ کی اپنی سابقہ تعریف کی تردید کردی۔

سنہ 1977ء میں جنسی رجحان کے میدان میں امتیازی سلوک کی روک تھام کے لیے کوئبک نے دنیا میں سب سے پہلے ریاستی سطح پر قانون نافذ کیا۔ 1980 اور 1990 کی دہائیوں کے دوران، بہت سے ترقی یافتہ ممالک نے ہم جنس پرست رویوں پہ غیر مجرمانہ قانون کا نافذ کیا اور لیسبئین اور گے لوگوں کی طرف روزگار، گھریلو اور خدمات میں امتیازی سلوک کی کے خلاف روک تھام کی۔ دوسری طرف آج بھی مشرق وسطی اور افریقہ کے بہت سے ممالک کے ساتھ ساتھ ایشیا کے بیشتر ممالک، کیریبئین اور جنوبی الکاہل ہم جنس پرستی کو قانونی جرم قرار دیتے ہیں۔ 11 دسمبر 2013ء کو بھارت نے کی عدالت عظمیٰ کی حکم فرمائی سے ہم جنس پرستی جرم قرار دی گئی۔[175] بھارت کے نوآبادیاتی دور کے ضابطہ تعزیرات کی دفعہ 377 کو لاگو رہا جو ہم جنس پرست رویوں کو دس سال قید یا موت کی سزا کے ساتھ مجرمانہ قرار دیتی ہے۔[176][177]

جنسی رجحان پہ مبنی امتیازات کے خلاف قانون

ریاست متحدہ

روزگار امتیازات کام کرنے کی جگہ میں امتیازی سلوک کے اعمال کا حوالہ ہے جیسا کہ کام پر رکھنے میں تنگ نظری، ترقی، کام کی سپردگی، برطرفی اور معاوضہ اور بہت سی دوسری ایذا دہی کی اقسام۔ ریاست متحدہ میں "جنسی رجحان کی بنیاد پر روزگار میں امتیازی سلوک کو قانوناً غلط قرار دینے پر بہت کم قانونی شرائط، عام دستور اور مقدمے کا قانون ہے۔[178] جبکہ کچھ استثنیات اور متبادل قانونی حکمت عملی دستیاب ہیں۔

رہائشی امتیازات زمین مالکوں کی طرف سے ممکنہ یا موجودہ کرایہ داروں کے خلاف امتیازی سلوک کا حوالہ ہے۔ ریاستہائے متحدہ میں جنسی رجحان یا صنفی شناخت کی بنیاد پہ اس جیسے امتیازی سلوک کے خلاف کوئی وفاقی قانون موجود نہیں ہے، لیکن کم از کم تیرہ ریاستیں اور بہت سے بڑے شہر اس کی ممانعت پہ قانون نافذ کرتے ہیں۔[179]

منافرت ذدہ جرائم (تعصب ذدہ جرائم کے طور پر بھی جانا جاتا ہے) وہ جرائم ہیں جو ایک قابل شناخت سماجی گروہ کے خلاف تنگ نظری کی ترغیب دیتے ہیں، ایسے گروہ عام طور پر نسلی (انسانوں کی درجہ بندی)، مذہب، جنسی رجحان، معذوری، مقامی گروہ، قومیت، عمر، جنس، صنفی شناخت یا سیاسی تعلق کی تعریف میں آتے ہیں۔ ریاست متحدہ میں پینتالیس ریاستیں اور ڈسٹرکٹ کولمبیا مختلف اقسام کی نفرت پر مبنی تشدد یا دھمکیوں کی ترغیب کو مجرمانہ قرار دینے پر قانون نافذ کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر قانون نسل، مذہب اور مقامی گروہ کی بنیاد پر قائم تعصب کا احاطہ کرتا ہے؛ ان میں سے 32 قوانین جنسی رجحان کا احاطہ کرتے ہیں، 28 جنس اور 11 مخنث یا صنفی شناخت کا احاطہ کرتے ہیں۔[180] اکتوبر 2009ء میں میتھیو شیفرڈ اور جیمز بآئرڈ جونئیر کا منافرت ذدہ جرائم کی روک تھام کا ایکٹ، جس میں "محکمہ انصاف کو نفرت پہ مبنی تشدد کی چھان بین اور مقدمہ چلانے کا اختیار دیتا ہے جہاں مرتکب نے کسی شخص کی حقیقی یا ادراکی طور پر اس کی نسل، رنگ، مذہب، قومی مآخذ، صنف، جنسی رجحان، صنفی شناخت یا معذوری کی وجہ سے شکار بنایا ہے"، یہ ایکٹ قانون میں شامل کیا گیا اور منافرت ذدہ جرائم جنسی رجحان پر مبنی دوسری خلاف ورزیوں کے ساتھ ریاست متحدہ میں وفاقی جرم قرار دیا گیا۔[181]

یورپی یونین

یورپی اقوام میں جنسی رجحان یا صنفی شناخت کی بنیاد پر کسی بھی قسم کا امتیازی سلوک یورپی یونین کے بنیادی حقوق کے چارٹر کے تحت غیر قانونی ہے۔[182]

سیاسی فعالیت

1960 کی دہائی کے بعد سے مغرب میں بہت سے ایل جی بی ٹی لوگ خصوصاً وہ جو اہم ام البلاد علاقوں میں گے کلچر کو تشکیل دیا۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک گے کلچر گے پرائڈ موومنٹ اور سالانہ پریڈز اور قوس قزاح کے رنگوں کے جھنڈوں کی نمائش کی مثال ہے۔

1980ء کے آغاز میں ایڈز کے پھیلاؤ کے ساتھ بہت سے ایل جی بی ٹی گروہ اور افراد نے ایڈز کے بارے میں تعلیم، روک تھام، تحقیق، مریضوں کی مدد اور کمیونٹی کی فوقیت پہ باقاعدہ جدوجہد کو بڑھانے کی منتظم کیا، اس کے ساتھ ساتھ حکومت سے بھی ان پروگراموں کے فروغ کا مطالبہ کیا۔

ایڈز کی وباء پھیلنے کے حادثے میں ہونے والی اموات کی پریشان کن تعداد نے پہلے پہل گے حقوق کی تحریک کی کارکردگی کو سست کر دیا، لیکن اسی وقت میں اس نے ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے کچھ حصوں میں کمیونٹی خدمات اور سیاسی رد عمل میں جست کاری کی اور مخالف جنس پرست کمیونٹی کو ہمدردی سے پیش آنے کے لیے چیلنج کیا۔ اس مدت میں افراد اور کمیونیٹیز کے رد عمل کو ڈراما کی صورت میں دکھانے کے لیے اہم امریکی فلموں میں An Early Frost (1985)، Longtime Companion (1990)، And the Band Played On (1993)، Philadelphia (1993)، and Common Threads: Stories from the Quilt (1989) شامل ہیں۔

عوامی ہم جنس پرست سیاست دانوں نے بیشتر حکومتی عہدے حاصل کیے ہیں، حتی کہ ان ممالک میں بھی جہاں سدومی قوانین حال ہی میں ختم ہوئے ہیں۔ ان کی چند ایک مثالیں جرمنی کے وائس چانسلر گوئیدو ویسٹرویل، برطانوی مزدور جماعت کابینہ کے وزیر پیٹر مینڈیلسن اور ناروے کی سابقہ وزیر مالیات پیرکرسٹن فوس شامل ہیں۔

ایل جی بی ٹی تحریکوں کی مختلف افراد اور تنظیموں کی طرف سے مخالفت رہی ہے۔ کچھ سماجی قدامت پرستوں کا ماننا ہے کہ مخالف جنس شریک حیات کے علاوہ سبھی دوسرے جنسی تعلقات روایتی خاندان کی جڑوں کو نقصان پہنچاتے ہیں[183] اور یہ کہ بچوں کو گھر میں ایک ماں اور ایک باپ دونوں کے ساتھ بڑھنا چاہئیے۔[184][185] گے حقوق کے کچھ مخالف کہتے ہیں کہ ایک شخص کے مذہبی نقطۂ نظر سے ایسے حقوق انفرادی اظہار رائے کی آزادی،[186][187][188][189][190] کام کرنے کی جگہ پر مذہبی آزادی،[191][192] کلیسا کو چلانے کی استقامت،[193][194] خیراتی تنظیموں[194][195] اور دوسرے مذہبی تنظیموں کے متضاد ہیں[196] اور مذہبی تنظیموں کی طرف سے ہم جنس پرست تعلقات کی منظوری چرچوں پر سے محصول-معافی کی حیثیت ختم کرنے کی دھمکی دے کر زبردستی کی جا سکتی ہے جن کے نظریات ان نظریات کے برابر نہیں ہیں جو حکومت کے ہیں۔[197][198][199][200]

فوجی خدمات

گے اور لیسبئین فوجی اہلکاروں کی طرف حکمت عملیاں دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر مختلف ہیں۔ کچھ ممالک گے مردوں کو، لیسبئین کو اور بائی سیکشوول لوگوں کو کھلے طور پر خدمت کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور ان کو اپنے مخالف جنس پرست مقابل کے برابر کے حقوق اور استثنیٰ منظور کیے جاتے ہیں۔ بہت سے ممالک ایل جی بی خدمت گزار ارکان پہ نہ تو پابندی لگاتے ہیں اور نہ حمایت کرتے ہیں۔ کچھ ممالک ہم جنس پرست اہلکاروں پہ مکمل پابندی لگاتے ہیں۔

زیادہ تر مغربی فوجی فورسز جنسی اقلیت کے ارکان کو خارج کرنے کی پالیسیاں ختم کردی ہیں۔ نیٹو کی فوج میں شامل 26 ممالک میں سے 20 سے زیادہ کھلے طور پر گے، لیسبئین اور بائی سیکشول لوگوں کو خدمت کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں سے تین (سلطنت متحدہ، فرانس، ریاست متحدہ) ایسا کرتے ہیں۔ دوسرے دو ممالک عام طور پر ایسا نہیں کرتے: چین لیسبئین اور گے لوگوں پر مکمل  پابندی لگاتا ہے، روس نے امن کے دور کے دوران میں تمام گے اور لیسبئین لوگوں کو خارج کر دیا لیکن کچھ گے مردوں کو جنگ کے وقت میں خدمت کرنے کی اجازت دیے رکھی۔ مشرق وسطی کے خطے میں اسرائیل واحد ملک ہے جو کھلے عام ایل جی بی لوگوں کو فوج میں خدمت کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

دریں اثناء ریاست متحدہ میں ہم جنس پرستی کا فوج میں سوال بہت سیاسی نوعیت کا بن چکا ہے، یہ سوال بہت سے دوسرے ممالک میں ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ دراصل ریاست متحدہ کی نسبت ان ممالک کی ثقافتوں میں جنسیت کے بارے میں عمومی رائے دینا ایک شخص کی ذاتی شناخت کا پہلو سمجھا جاتا ہے۔

امریکی تنظیم برائے طب نفسیات کے مطابق تجرباتی ثبوت یہ ظاہر کرنے میں ناکام ہیں کہ جنسی رجحان فوجی کارکردگی کے کسی بھی پہلو پر نقصان دہ ہیں بشمول یونٹ کی پیوستگی، حوصلہ اور ہمت، بھرتی اور برقراری۔[201] جنسی رجحان مقررہ کام سے ہم آہنگی میں غیر متعلقہ ہے جو ربط کی صرف ایک قسم ہے جو کسی بھی فوجی ٹیم کی چستی اور کامیابی کی پیشن گوئی کرتی ہے۔[202]

معاشرہ اور سماجیات

عوامی رائے

غیر مخالف جنس پرست رجحانات کی معاشرتی قبولیت جیسا کہ ہم جنس پرستی ایشیا اور افریقہ کے ممالک میں سب سے کم ہے اور یورپ، آسٹریلیا اور شمالی اور جنوبی امریکا میں سب سے زیادہ ہے۔ سابقہ کچھ دہائیوں سے مغربی معاشروں نے ہم جنس پرستی کو تیزی سے قبول کیا ہے۔ سال 2017ء میں پروفیسر ایمی ایڈمزیک متفقہ طور پر کہتی ہیں کہ یہ کراس-نیشنل اختلافات تین عوامل سے وسیع پیمانے پر بیان کیے جا سکتے ہیں: جمہوری اداروں کی وابستہ قوت، معاشی ترقی کی سطح اور علاقوں کے مذہبی تضاد جہاں جہاں لوگ رہتے ہیِں۔[203]

تعلقات

سال 2006ء میں امریکی تنظیم برائے نفسیات، امریکی تنظیم برائے طب نفسیات اور قومی تنظیم برائے سماجی کارکنان نے ریاست کیلیفورنیا کی عدالت عظمیٰ کو عدالتی معاونت میں ایک مختصر بیان پیش کیا: "گے مرد اور لیسبئین مستحکم اور وابستہ تعلقات قائم کرتے ہیں جو لازمی پہلووں میں مخالف جنس پرست تعلقات کے مساوی ہوتے ہیں۔ شادی کا ادارہ سماجی، نفسیاتی اور صحت کے فوائد فراہم کرتا ہے جو ہم جنس جوڑے کو دینے سے انکار کر دیے جاتے ہیں۔ ہم جنس جوڑے کو شادی کے حق سے انکار پر، ریاست ہم جنس پرستی سے منسلکہ تاریخی رسوائی کو مضبوط کرتی اور دوام بخشتی ہے۔ ہم جنس پرستی کلنک کے طور پر باقی رہتی ہے اور یہ کلنک منفی نتائج رکھتی ہے۔ کیلیفورنیا کی ہم جنس جوڑوں پر شادی کی ممانعت اس کلنک کی عکاسی کرتی ہے اور قوت بخشتی ہے۔" وہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں: "قانونی حقوق، ذمہ داریوں، فوائد اور شہری شادی کی طرف سے دیے گئے بوجھ کے پہلو سے ہم جنس جوڑوں اور مخالف جنس جوڑوں کے درمیان میں امتیازیت پر کوئی سائنسی بنیاد موجود نہیں ہے۔"[2]

مذہب

اگرچہ ہم جنس پرستی اور مذہب کے درمیان میں تعلق میں وقت اور جگہ کے لحاظ سے بہت فرق ہے، مختلف مذاہب اور فرقوں کے اندر اور آپس میں، ہم جنس پرستی اور دو جنسیت کی مختلف اقسام کے بارے میں، فی الحال دنیا کے بڑے مذاہب کے مستند ادارے اورعقائد عموماً ہم جنس پرستی کو منفی طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ ہم جنس پرست سرگرمی کی خاموش حوصلہ شکنی سے لے کر ہم جنس پرستی کو اپنے پیروکاروں کے درمیان میں واضح طور پر حرام قرار دیتے ہیں اور فعال طور پر معاشرے کی ہم جنس پرستی کی طرف قبولیت کی مخالف کرتے ہیں۔ کچھ سیکھاتے ہیں کہ ہم جنس پرستی ازخود ایک گناہ ہے،[204] دوسرے کہتے ہیں کہ صرف جنسی عمل گناہ ہے،[205] دیگر مکمل طور پر گے اور لیسبئین کو قبول کرتے ہیں،[206] جبکہ کچھ ہم جنس پرستی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔[207] کچھ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم جنس پرستی مذہبی ایمان اور عمل کے ذریعے قابو کی جا سکتی ہے۔ دوسرے طرف ان مذاہب کے ساتھ بہت سی آوازیں موجود ہیں جو ہم جنس پرستی کو زیادہ مثبت دیکھتی ہیں اور آزاد خیال مذہبی فرقہ ہم جنس شادیوں کو بھلا سمجھتا ہے۔ کچھ ہم جنس محبت اور جنسیت کو مقدس دیکھتے ہیں اور ہم جنس پیار کے بارے میں اساطیر دنیا بھر میں دیکھی جا سکتی ہے۔[208]

امتیازات

گے مخالف دھونس

گے مخالف دھونس زبانی یا جسمانی بدسلوکی ہو سکتی ہے ایک شخص کے خلاف جسے حملہ آور ایک لیسبئین، گے، بائیسیکشول یا ٹرانسجینڈر کے طور پر دیکھ رہا ہو، بشمول ایسے لوگ جو دراصل مخالف جنس پرست ہوں یا نامعلوم جنسی رجحان کے ہوں۔ ریاست متحدہ میں ٹین ایج طلبہ گے مخالف لوگوں سے چھیڑنے اور برا بھلا کہنے والے الفاظ سنتے رہتے ہیں جیسا کہ "ہومو"، "فیگٹ" اور "سسی" (ہم جنسہ، زنخا، نامرد)۔ امریکی ذہنی صحت کے 1998ء کے ایک مطالعے کے مطابق، ٹین ایج طلبہ یہ الفاظ دن میں اوسطاً 26 بار سنتے ہیں یا ہر ایک منٹ میں 14 بار سنتے ہیں۔[209]

ہیٹروسیکسزم اور ہوموفوبیا

بہت سی ثقافتوں میں ہم جنس پرست لوگ بسا اوقات تعصب اور امتیازات کا شکار ہوتے ہیں۔ 2011ء کی ایک ڈچ تحقیق اخذ کرتی ہے کہ 49٪ ہالینڈ کے نوجوان اور 58٪ دوسرے ممالک کی نوجوان نسل ہم جنس پرستی کو مسترد کرتی ہے۔[210] اسی طرح دوسرے اقلیتی گروہوں کی طرف بھی وہ دقیانوس تصورات کے حامل ہو سکتے ہیں۔ یہ رویے ہوموفوبیا اور ہیٹروسیکسزم (مخالف جنس سے جنسی اعمال اور تعلقات کی حمایت میں منفی رویے، تعصب اور امتیازات) کی پیروی کرنے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ہیٹروسیکسزم اس گمان کو شامل کر سکتا ہے کہ ہر کوئی ہیٹروسیکشول ہے یا مخالف جنس میلان اور تعلقات مثالی اور برتر ہیں۔ ہوموفوبیا ہم جنس پرست لوگوں کے خلاف کراہت یا امتیازات کی صورت کا ایک خوف ہے۔ یہ مختلف اقسام میں ظاہر ہوتا ہے اور ان کے مختلف مفروضے ہیں، جن کے مابین اندرونی ہوموفوبیا، معاشرتی ہوموفوبیا، جذباتی ہوموفوبیا، منطقی ہوموفوبیا اور دیگر۔[211] اسی طرح سے لیسبوفوبیا (لیسبئن کو نشانہ بنانے کے لیے) اور بائیفوبیا (بائیسیکشول لوگوں کو نشانہ بنانے کے لیے) ہے۔ جب ایسے رویے جرم کے طور پر ظاہر ہوتے ہیں تو یہ اکثر نفرت انگیز جرائم یا گے بیشنگ کہلاتے ہیں۔

منفی دقیانوسیت کے حامل ایل جی بی لوگ رومانوی طور پر جتنے کم مستحکم ہوتے ہیں اتنے ہی زیادہ مخلوط اور بچوں سے بدعنوانی کرنے میں زیادہ امکان ہو سکتے ہیں، لیکن اس طرح کے دعوی کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔ گے مرد اور لیسبئین مستحکم اور وابستہ تعلقات تشکیل دیتے ہیں جو ضروی پہلووں میں مخالف جنس پرست تعلقات کے مساوی ہوتے ہیں۔[2] جنسی رجحان ان امکانات پہ اثرانداز نہیں کرتی کہ لوگ بچوں سے بدعنوانی کریں گے۔[212][213][214] جو گے ہونے اور بچہ باز ہونے کے درمیان میں تعلق کی حمایت میں سائنسی ثبوت کے دعوے ان اصطلاحات کے بے جا استعمال اور حقیقی ثبوت کی غلط بیانی پر مبنی ہیں۔[213]

گے اور لیسبئین پر تشدد

ریاست ہائے متحدہ امریکا میں ایف-بی-آئی کی اطلاع کے مطابق 20.4٪ نفرت انگیز جرائم 2011ء میں جنسی رجحان کے تعصب پر مبنی قانون کے عمل درآمد میں آئے۔ ان جرائم میں سے 56.7٪ ہم جنس پرست مردوں کے خلاف تعصب کی بنیاد پر کیے گئے تھے۔ 11.1٪ ہم جنس پرست عورتوں کے خلاف۔ 29.6٪ اینٹی-ہوموسیکشول جانبداری کی بنیاد پر کسی مخصوص جنس کے خلاف۔[215] 1998ء میں ایک گے طالب علم میتھیو شیفرڈ کا قتل یو-ایس میں ہونے والے حادثات میں ایک ہے، خاص کر لیسبئین جو "اصلاحی جنسی زیادتی" شکار ہوتی ہوں گی، اس مقصد کے ساتھ کہ اس سے وہ مخالف جنس پرست بن جائینگی۔ دنیا کے بہت سے حصوں میں ایل جی بی ٹی لوگ بھی اپنے خاندان یا رشتے داروں کی طرف سے "غیرت کے نام پر قتل" کے ارتکاب میں خطرہ پر ہیں۔[216][217][218]

دوسرے جانوروں میں ہم جنس پرست طرز عمل

ہم جنس پرست اور دو جنس پرست رویے بہت سے حیوانی انواع میں واقع ہوتے ہیں۔ اس طرح کے طرز عمل میں جنسی سرگرمی، معاشقہ، چاہت، جوڑی بندی اور والدین، زیادہ شامل ہیں؛[14] 1999 میں بروس باگیمیہل تحقیق دان یہ دکھاتا ہے کہ ہم جنس پرست طرز عمل 500 انواع میں دستاویز کیا گیا ہے، جس میں اعلیٰ مخلوق سے لے کر آنت کے کیڑوں تک کے انواع شامل ہیں۔[13][14] ان رویوں کے اسباب اور ان کے مضمر ابھی مکمل طور پر سمجھنا باقی ہیں، زیادہ تر انواع پہ مکمل تحقیق بھی ابھی باقی ہے۔[219] باگے میحل کے مطابق "حیوانی دنیا میں جنسی تنوع زیادہ بڑی تعداد میں ہے — بشمول ہم جنس پرستی، دو جنس پرستی اور غیرتولیدی جنسیت" بڑے پیمانے پر سائنسی کمیونٹی اور ادارے پہلے ہی سے اسے قبول کرنا چاہتے تھے۔[220]

حوالہ جات