گھر واپسی

گھر واپسی (ہندی: घर-वापसी) عام ہندی اور اردو میں کسی کے زیادہ عرصے کے وقفے بعد اپنے وطن اور مقام رہائش پر لوٹ آنے کے ہیں۔ تاہم یہ اصطلاح بھارت میں اکیسویں صدی میں ایجاد کردہ مجازی معنوں میں مستعمل ہے جو نام نہاد طور پر باز تبدیلی مذہب کی کوششوں اور ان کوششوں کو عملی جامہ پہنانے کا نام ہے۔ بھارت میں کئی ہندو تنظیمیں گھر واپسی کے نعرے کو عام کرنے میں لگی ہیں، ان میں وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی)، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ، بجرنگ دل اور ایسی کئی تنظیمیں شامل ہیں۔ اس مقصد کی انجام دہی کے کیے الگ سے ایک چندہ اسکیم رواں کی گئی ہے، جسے ہندو دھرم رکشا فنڈ (ہندی: हिन्दू धर्म रक्षा निधि[1]/ हिन्दू धर्म रक्षा फ़ंड) کا نام دیا گیا ہے، جسے وی ایچ پی چلاتی ہے۔ یہ چندے کا بکس کئی ہوٹلوں اور دکانوں میں نقد کاؤنٹروں کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے، جس میں اس مسئلے اور مقصد سے اتفاق کرنے والے ہندو گاہک حسب مرضی نوٹوں کا چندہ جمع کرتے ہیں۔ 2014ء میں عام بحث و مباحثہ کا موضوع بن گیا تھا۔[2][3][4] ہندو یووا واہنی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے قائد نے اپنی ایک سیاسی ریالی میں یہ دعوٰی کیا کہ یہ مہم اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کے ملک میں دیگر مذاہب کے حلقہ بگوش بننے کے سلسلے کو مکمل طور ممنوع نہ قرار دیا جائے۔

گھر واپسی اور اسی طرح کے مقاصد کے لیے جمع کیا جانے والا ہندو دھرما رکشا فنڈ کا بکس۔ اسی طرح کے کئی بکس بھارت کی کئی دکانات اور عوامی مقامات پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

وشوا ہندو پریشد اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے تلنگانہ[5]، آندھرا پردیش، کیرلا اور گووا میں کئی گھر واپسی کی کئی مہمات چلا چکے ہیں۔[6][7] دی انڈین ایکسپریس کی اطلاع کے مطابق درج فہرست طبقات کے مانجھی خاندانوں نے مذہب بدلنے سے پہلے تعلیم اور صحت کی بہتر سہولتوں کا مطالبہ کیا تھا۔[8]

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ہندومت میں باز تبدیلی مذہب کسی شخص کو تحفظات کے فوائد اور آبا و اجداد کی ذات اختیار کرنے میں مانع نہیں ہے۔ یہ خیال کا اظہار کیا گیا کہ: "تفصیلی مطالعے سے یہ بات آشکارا ہوئی ہے کہ ہندومت سے تعلق رکھنے والے وہ درج فہرست طبقات کے اشخاص جنھوں نے مسیحیت کسی امید یا آس میں اختیار کیا تھا، وہ سماجی، تعلیمی اور معاشی طور پر پسماندہ ہی رہے ہیں۔[9]

اہم واقعات

تلنگانہ اور آندھرا پردیش سے 8,000 لوگ جولائی 2014ء سے دسمبر 2014ء کے بیچ ہندومت میں دوبارہ گھر واپسی کی کوششوں کے تحت شامل ہو گئے۔[10] وی ایچ پی کے عہدے داروں کے مطابق 1,200 لوگ حیدرآباد، دکن سے ہندومت کا دامن دوبارہ تھام لیے تھے۔[5]

جنوری 2016ء میں 15 دلت مسیحی ویلور ضلع میں منعقدہ ایک گھر واپسی پروگرام میں ہندو بن گئے۔[11]

اپریل 2017ء میں کم از کم 53 مسیحی خاندان آر ایس ایس کے "مسیحیت سے آزاد بلاک" مہم کے تحت ارکی، جھارکھنڈ میں ہندو بن گئے۔ کوچہ سندری گاؤں میں کم از کم 7 دیگر مسیحی خاندان شدھی کرن کی رسم سے گذرے۔[12][13]

مئی 2017ء میں آر ایس ایس نے کم از کم 22 مسلمان خاندانوں کے مذہب کی تبدیلی کی رسم انجام دی، جس میں خواتین اور بچے شامل تھے۔ یہ رسم اپنے آپ میں منفرد نوعیت کی ہونے کی وجہ سے خفیہ طور پر فیض آباد، اتر پردیش میں انجام پائی۔ بعد میں ان افراد نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ انھوں نے کسی مذہبی جلسے میں شریک رہنے کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے شدھی کرن بھی شامل ہوئے تھے اور ان کو تو پتہ ہی نہیں کہ ان کا مذہب تبدیل کیا جا رہا ہے۔[14]

جنوری 2019ء میں 96 قبائلی خاندان جو 9 سال پہلے مسیحیت اختیار کر گئے تھے، گھر واپسی کے مرحلوں سے گذر کر دوبارہ ہندو بن گئے۔ یہ واقعہ کیلاشہر میں ہوا جو اونا ضلع میں ہے۔ یہ واقعہ ہندو جاگرن منچ کے پرچم تلے ہوا جو آر ایس ایس اور وی ایچ پی کی ذیلی شاخ ہے۔[15]

گھر واپسی مہم کا متضاد رد عمل

2013ء سے 2018ء کے بیچ بی جے پی زیر اقتدار ریاست گجرات میں مذہبی تبدیلی کی درخواست دینے والے 93.5 فی صد لوگ ہندو تھے، جو کسی اور مذہب کو اختیار کرنا چاہتے تھے۔مذہب کی تبدیلی کی درخواست دینے والوں کی تعداد 1,766 تھی، جن میں 1,652 ہندو تھے، 71 مسلمان، 42 مسیحی اور ایک سکھ تھا۔ وی ایچ پی کے سابق صدر اور انتر راشٹریہ ہندو پریشد کے بانی پروین توگاڈیہ نے گجرات کے وزیر اعلٰی وجے روپانی کے ان اعداد و شمار پر تبصرہ کرتے ہوئے دعوٰی کیا کہ ہندو مذہب ترک کر کے دوسرے مذاہب اختیار کرنے والوں کی تعداد ان اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے، مگر صحیح گنتی دستیاب نہیں ہے کیوںکہ سرکاری فوائد حسب سابق جاری رکھوانے کے لیے لوگ اپنے مذہبی موقف کا کھل کر اعتراف نہیں کر رہے ہیں، جو ایک بے حد سنجیدہ معاملہ ہے۔[16]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

مزید پڑھیے

  • [1], Official Ghar Wapsi Subreddit
  • "۔ Religion, Caste and Politics in India۔ C Hurst & Co۔ صفحہ: 144–169۔ ISBN 978-1849041386 
  • Manjari Katju (3 January 2015)۔ "The Politics of Ghar Wapsi"۔ Economic and Political Weekly۔ 50 (1): 21–24۔ 24 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2015 
  • Yoginder Sikand، Manjari Katju (20 August 1994)۔ "Mass Conversions to Hinduism among Indian Muslims"۔ Economic and Political Weekly۔ 29 (34): 2214–2219۔ JSTOR 4401654 
  • Iris Vandevelde۔ "Reconversion to Hinduism: A Hindu Nationalist Reaction against Conversion to Christianity and Islam"۔ South Asia: Journal of South Asian Studies۔ 34 (1): 31–50۔ doi:10.1080/00856401.2011.549083 
  • Ghar Vapsi: Civil society needs to challenge RSS's conversion agenda, Firstpost, 14 December 2014
  • 'Reconversion' Paradoxes, Christopher Jaffrelot, Indian Express, 7 January 2015
  • The politics of othering, Charu Gupta, Indian Express, 20 December 2014.