گرو دت

گرو دت
(انگریزی میں: Guru Dutt ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش9 جولا‎ئی 1925ء [1][2][3]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بنگلور [4]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات10 اکتوبر 1964ء (39 سال)[1][2][3]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ممبئی [5]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفاتنشے کی زیادتی   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفاتخود کشی   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
بھارت (26 جنوری 1950–)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہگیتا دت (1953–1964)  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعداد اولاد
بہن/بھائی
لالیتا لجمی ،  آتما رام   ویکی ڈیٹا پر (P3373) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمیہیئر اسکول   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہفلم اداکار ،  فلم ہدایت کار ،  فلم ساز ،  کوریوگرافر ،  منظر نویس ،  فلم مدیر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبانہندی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی

مشہور ہندوستانی اداکار۔ ہدایت کار اور فلمساز۔ بنگلور میں پیدا ہوئے۔گرو دت کا تعلق منگلور کے ایک سرسوت برھمن خاندان سے تھا لیکن اُن کی تعلیم کلکتہ میں ہوئی۔ بنگالی ثقافت کا اُن کے ذہن، شخصیت اور فن پہ گہرا اثر رہا۔گرو دت نے کئی مرتبہ بنگالی زبان میں فلم بنانے کی کوشِش بھی کی۔

پہلی فلم

اکثر لوگ فلم ’باز‘ کوگرو دت کی پہلی فلم سمجھتے ہیں لیکن گرو دت ’باز‘ سے پہلے تین فلموں سے وابستہ رہے۔ ’لاکھا رانی‘ (1945ء)،’ ہم ایک ہی‘ (1946ء) اور’گرلز اسکول‘(1949ء)۔

فلم کیرئیر کا آغاز

گرو دت کے چاہنے والوں میں سے شاید بہت کم ہی اِس امر سے واقف ہوں کہ گرو دت نے اپنے فلمی کیرئر کا آغاز ایک ڈانس ڈائریکٹر کی حیثیت سے مشہور پربھات سٹوڈیو میں فلم لاکھا رانی سے کیا۔ انھوں نے 1942ء سے 1944ء تک اُستاد اُدھے شنکر کی المورا ڈانس اکیڈمی میں تربیت حاصل کی تھی۔

کیرئیر

فلموں میں اپنے کیرئر میں انھوں نے بطور اداکار کُل 17 فلموں میں کام کیا اور اُن میں سے 8 فلمیں انھوں نے خود ڈائریکٹ کیں اور یہی فلمیں اُن کی سب سے بہترین فِلمیں بھی ثابت ہوئیں۔ ان کی مشہور فلموں میں ’صاحب، بیوی اور غلام‘ اور ’چودہویں کا چاند‘ بھی شامل ہیں جو انھوں نے خود ڈائریکٹ نہیں کیں۔

بے مثال فلمیں

اگر گرو دت کی چار فلموں کو بے مثال کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ان میں دو تو کامیڈیز تھیں اور دو ٹریجیڈیز۔ گرو دت کے کام کرنے کا طریقہ ہی کچھ ایسا تھا کہ پہلے ایک کامیڈی بناتے اور اُس کے فوراً بعد ایک سنجیدہ فلم بنانا شروع کر دیتے۔

’ آر پار‘ اور ’مسٹر اینڈ مسز ففٹی فائیو‘ ہندوستانی فِلموں کی یادگار کامیڈیز میں سے ہیں جبکہ’پیاسا‘ اور’ کاغذ کے پھول‘ نہ صرف ہندوستانی بلکہ عالمی سنیما کی دو نہایت ہی اہم فِلمیں مانی جاتی ہیں۔ اِن دو فِلموں میں سے ’پیاسا‘ نہ صرف زیادہ مقبول رہی بلکہ ایک وہ بہتر فِلم بھی ہے۔

پیاسا

’پیاسا‘ کو یوں تو ٹریجیڈی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ فِلم کا ہیرو آخر میں نہ صرف ایک نئی زندگی شروع کرتا ہے بلکہ وہ اپنے آپ کو کلاس، فیملی اور کمیونٹی کے بندھن سے آزاد کر پاتا ہے۔

پیاسا میں گرو دت نے ایک اُداس شاعر کو مسیحا بنا کر پیش کیا۔ ایک ایسا مسیحا جس کی سماجی موت ہی اُس کی حیات کا سبب بنتی ہے۔ گرو دت نے اِپنی زندگی خود ختم کر کے موت اور آزادی کے رشتے کی اُسی کشمکش کا اِظہار کیا جو اُن کی فلم’پیاسا‘ میں نظر آتی ہے۔ مشہور فِلم سکالر لاورا ملوی نے حال ہی میں ’سائٹ اینڈ ساونڈ‘ میگزین میں گرو دت کی فلم’پیاسا‘ کو دُنیا کی دس بہترین فلموں میں شمار کیا۔

مقام

اگر محبوب خان، بمل رائے اورراج کپور کی فِلموں نے دیوداس کے امیج کی صورت میں اس دور کے ہندوستانی نوجوان کی ایک الگ اور نئی تصویر پیش کی توگُرو دت نے اُس اُداس ہیرو کوایک ذاتی اور سیاسی پہچان دی۔

ایک ایسے وقت میں جب ہندوستانی سنیما ایک نئے دور کی تلاش میں تھا ،گرو دت نے اپنی فلموں میں بہت سے کٹھن سوال اٹھا کر لاکھوں نوجوانوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔ اِن سوالوں کے جواب شاید خود گرو دت کو آخر تک نہ مل سکے لیکن اِن سوالوں سے گرو دت نے ہندوستانی سِنیما کی ایک ایسی الگ تاریخ لکھی جس کا اثر آج بھی ہندوستانی سِنیما پر نظر آتا ہے۔

اردو سے محبت

گُرو دت کو اُردو سے محبت تھی لیکن وہ محبت ایک ایسی اُردو کے لیے تھی جسے بمبئی کا پارسی اپنے انداز میں اور مدھیہ پردیش کا ٹیکسی ڈرائیور اپنے انداز میں بولتا تھا۔ اُن کی فِلموں میں ایسی اردو شاعری کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جس کا جنم بمبئی کی فلم انڈسٹری میں ہوا اِور جس کا اثر آج بھی فلم انڈسٹری پر صاف نظر آتا ہے۔ ساحر لدھیانوی کی اس اردو سے پیار کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ یہ وہ اردو تھی جو خود گرو دت کے جذبات اور حالات سے واقف تھی، وہ اُردو جو انھیں پہچانتی تھی اور جس میں ہندوستان کے کئی نوجوان اس زمانے میں اپنے آپ کی تلاش کر رہے تھے۔

انتقال

انھوں نے 10 اکتوبر، 1964ء کو اپنی زندگی خود ختم کرلی۔