آصفہ بانو | |
---|---|
مقام | کٹھوعہ، کشمیر |
تاریخ | 17 جنوری 2018ء کو نعش ملی، جب کہ بچی 10 جنوری کو لاپتہ ہوئی۔ |
حملے کی قسم | جنسی زیادتی اور قتل |
زخمی | جنسی حملہ (زنا بالجبر)۔ |
متاثر | آصفہ بانو |
مرتکبین | چار پولیس والے اور ایک نابالغ اور ایک باپ اور اس کا بیٹا |
تحقیقات | ڈی این اے نمونے اور مندر سے بچی کے بال ملے ہیں۔ |
کٹھوعہ جنسی زیادتی کا معاملہ ایک 8 سالہ بچی آصفہ بانو کے اغوا، جنسی زیادتی اور قتل سے متعلق ہے جو بھارت کی ریاست جموں و کشمیر میں کٹھوعہ کے گاؤں رسانہ میں جنوری 2018ء کو پیش آیا۔ مقدمے کی چارج شیٹ پیش کر دی گئی ہے اور ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور مقدمے کی سماعت کے دوران میں پیش کیے جائیں گے۔ مقتول بچی خانہ بدوش قبیلے بکروال سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کی گمشدگی کے ایک ہفتے بعد اس کی لاش ملی۔ اس کے گاؤں والوں کو اس کی لاش ایک کلومیٹر دور ملی تھی۔ اس واقعے کی ذمہ داری جب اپریل 2018ء میں آٹھ افراد پر الزام عائد کیا گیا تو ملک گیر خبر بن گئی۔ ملزمان کی گرفتاری پر مختلف جماعتوں کی طرف سے احتجاج شروع ہوا جن میں سے ایک احتجاج میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو وزرا بھی شامل ہوئے۔ دونوں نے اب استعفی دے دیا ہے۔ بعد ازاں بھارت کی سپریم کورٹ نے پینتھرز پارٹی کے سربراہ بھیم سنگھ کی طرف سے سی بی آئی سے آزادانہ تحقیقات کروانے کی درخواست کی سماعت کی، تاہم اسے مسترد کر دیا گیا۔[1][2][3]جنسی زیادتی اور قتل کے علاوہ ملزمان کے لیے حمایت کے خلاف وسیع پیمانے پر ناراضی پھیل گئی ہے۔[4][5][6]
ذرائع کے مطابق کرائم برانچ کی تفتیش سے پتہ چلا ہے کہ بچی کے قتل کا واقعہ دراصل بکروالوں کو اس علاقے سے نکالنے کی ایک سازش کا حصہ ہے۔ مرکزی ملزم رام کو اس بات پر اعتراض تھا کہ رسانہ کے نواح میں بکروال کیوں زمین خرید رہے ہیں۔ رسانہ 13 برہمن گھرانوں پر مشتمل ایک دیہات ہے۔
12 جنوری 2018ء کو محمد یوسف نے ہیرا نگر پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی تھی کہ اس کی آٹھ سالہ بیٹی لاپتہ ہے۔ مدعی نے بتایا کہ اس کی بیٹی 10 جنوری 2018ء کو ساڑھے بارہ بجے گھوڑے چرانے لے گئی تھی۔ اسے دو بجے تک دیکھا گیا مگر 4 بجے گھوڑے تو گھر لوٹ آئے مگر وہ ساتھ نہ آئی۔ تلاش کی کوشش بھی ناکام رہی۔ اس کے باپ نے ایف آئی آر درج کرائی۔ اس کے حوالے سے 5٫600 الفاظ پر مشتمل چارج شیٹ جموں کے سینئر سپرنٹنڈٹ آف پولیس نے جمع کرائی۔
17 جنوری 2018ء کو بچی کی لاش ملی اور پولیس نے بعد از مرگ طبی معائنے کے لیے اپنے قبضے میں لے لی۔ کٹھوعہ کے ضلعی ہسپتال اسی روز اڑھائی بجے ڈاکٹروں کی جماعت نے بعد از مرگ طبی معائنہ کیا۔ 22 جنوری 2018ء کو یہ معاملہ جموں و کشمیر کی کرائم پولیس کے ہیڈ کوارٹر میں کرائم برانچ کے حوالے کر دیا گیا۔ پولیس کے مطابق کل سات افراد کی فہرست جاری کی جن کو گرفتار کر کے ان پر الزام عائد کیا گیا جن میں چار پولیس افسران بھی شامل ہیں۔ ابھی تک گرفتار شدگان میں چار پولیس والے اور ایک نابالغ اور ایک باپ اوربیٹا شامل ہیں۔ دو پولیس افسران پر شہادتوں کو مٹانے کا الزام ہے۔ سات بالغان کے خلاف چارج شیٹ 9 اپریل کو پیش کی گئی۔ ملزمان پر 302، 376، 201 اور 120-B رنبیر پینل کوڈ کی دفعات کے تحت الزامات لگائے گئے ہیں۔ نابالغ کے خلاف الگ سے الزامات کی تیاری کی جا رہی تھی۔[7]
طبی معائنے سے لاش کے جسم میں کلونازیپام نامی نشہ آور دوا کی موجودگی کا علم ہوا ہے۔[8] ڈاکٹروں کے خیال میں بچی کو پہلے نشہ آور دوا دے کر پھر اس کے ساتھ جنسی زیادتی اور پھر قتل کیا گیا۔ فورنزک شواہد کے مطابق بچی کو ایک ملزم کے زیرِ نگرانی مندر میں کئی روز رکھا گیا۔ مندر سے ملنے والے بال بچی کے بال ثابت ہوئے۔ فورنزک معائنے سے پتہ چلا ہے کہ بانو کئی مرتبہ کئی مختلف مردوں نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر اس کا گلا گھونٹ کر اسے ہلاک کیا اور پھر اس کے سر پر بھاری پتھر مارا۔[6]
جب اپریل میں الزامات عائد کیے گئے تو اس بارے پورے ملک میں خبر پھیل گئی۔ دائیں بازو کی ہندو جماعتوں نے ملزمان کی گرفتاری کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے کہ تمام تر ملزمان ہندو ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو وزرا یعنی محکمہ جنگلات کے وزیر لعل سنگھ چودھری اور وزیرِ صنعت چندر پرکاش نے ایک مظاہرے میں شرکت کی۔ جب 9 اپریل کو کرائم برانچ پولیس نے چارج شیٹ جمع کرانے کی کوشش کی تو کٹھوعہ کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کے دفتر میں وکلا نے احتجاج کرتے ہوئے اسے روکا۔ وکلا ہندو ایکتا منچ کی حمایت میں مظاہرہ کرتے ہوئے چارج شیٹ داخل کیے جانے سے روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔ تاہم جب پولیس کی کمک پہنچ گئی تو پھر چارج شیٹ کو داخل کرا دیا گیا۔ جنسی زیادتی کے ملزمان کی حمایت کے خلاف اشتعال پھیل گیا۔ ایک مشتعل خاتون بملا دیوی نے بتایا: ‘یہ ہمارے دھرم کے خلاف ہیں۔ اگر انھیں نہ چھوڑا گیا تو ہم خود سوزی کر لیں گے۔
آصفہ کے گجر قبیلے والے اسے چند سال قبل خریدی گئی زمین پر بنے اپنے قبرستان میں دفن کرنا چاہتے تھے جہاں ان کی برادری کے پانچ افراد پہلے ہی دفن ہیں۔ متوفیہ کے باپ نے بتایا کہ جب جنازہ قبرستان پہنچا تو ہندو دائیں بازو کے افراد نے انھیں گھیر لیا اور وہاں تدفین کی صورت میں تشدد کی دھمکی دی۔ بعد ازاں متوفیہ کی نعش کو سات میل دور ایک اور گاؤں میں دفن کرنے لے جایا گیا۔
جنسی زیادتی اور قتل کی ہر طرف سے مذمت ہوئی۔18 جنوری کو جموں اور کشمیر میں حزبِ اختلاف نے اس واقعے کے خلاف قانون ساز اسمبلی سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔ جموں اور کشمیر میں بہت جگہ پر مظاہرے ہوئے۔
جموں اور کشمیر کی وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اعلان کیا کہ تفتیش تیزی سے مکمل کی جائے گی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ نابالغ کے ساتھ جنسی زیادتی کے مجرمان کے لیے سزائے موت لازمی بنائی جائے گی۔ بچوں اور خواتین کی بہبود کی انڈین وزیر مانیکا گاندھی نے بھی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مقدمات میں سزائے موت کی حمایت کی اور کہا کہ ان کی وزارت اس سلسلے میں کابینہ کو بچوں سے ہونے والے جنسی جرائم کے قانون میں ترمیم کے لیے لکھے گی۔
13 اپریل 2018ء کو انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی اور انڈیا کی عدالتِ عظمیٰ نے بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کا اعلان کیا۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گیتارس نے بھی مطالبہ کیا کہ ذمہ داران کو انجام تک پہنچایا جائے اور اس واقعے کو خوفناک قرار دیا۔ اقوامِ متحدہ نے امید ظاہر کی کہ انتظامیہ اس واقعے کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے تک لائے گی۔
بہت سی مشہور شخصیات اور نمایاں سیاست دانوں نے بھی اس واقعے پر غصے کا اظہار کیا۔ 12 اپریل 2018ء کو باب ہند پر موم بتی مارچ کیا۔ اس مارچ میں انڈین نیشنل کانگریس کے رہنماؤں راہل گاندھی، سونیا گاندھی، غلام نبی آزاد اور پریانکا گاندھی نے بھی شرکت کی تھی۔ ہندو ایکتا منچ کے حق میں مظاہرہ کرنے والے وکلا کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ وشنو ننداکمار جو کوٹک مہندرا بینک کا اسسٹنٹ مینیجر تھا، نے فیس بک پر لکھا کہ اچھا ہوا کہ آصفہ مر گئی ہے ورنہ کل کلاں وہ بم بن جاتی۔ بعد میں اسے بینک کی ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔[10][11]
کٹھوعہ اور اناؤ میں جنسی زیادتی کے واقعات بیک وقت منظرِ عام پر آنے پر دونوں کے حوالے سے ملک بھر بشمول ممبئی، چینائی، کولکاتا اور نئی دہلی میں مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔[12][13][14][15]
اس واقعے میں جموں اور کشمیر میں غصہ پھیل گیا۔ حزبِ اختلاف کے احتجاج کے بعد ریاستی حکومت نے تفتیش ریاستی پولیس کی کرائم برانچ کے حوالے کر دی۔ کرائم پولیس نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اغوا کا مقصد اغوا کار کی ذاتی دشمنی بھی تھی اور بکروال قبیلے کو علاقے سے باہر نکالنا بھی تھا۔ کٹھوعہ ضلع میں ہندو اکثریت جبکہ بکروال اقلیتی مسلمان ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقامی رہنماؤں نے گرفتاریوں کو سیاسی دباؤ کانتیجہ قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ اس واقعے کی تحقیقات سینٹرل بیورو آف انوسیٹی گیشن یعنی سی بی آئی سے کرائی جائے۔ جموں اور کشمیر کی وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ ریاستی حکومت میں بی جے پی کے ساتھ اتحادی ہے اور اس نے یہ مطالبہ رد کر دیا ہے۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے صدر نے اس جنسی زیادتی اور قتل کا الزام پاکستان سے آئے لوگوں پر عائد کیا۔ بی جی پی کے اراکین نے ہندو ایکتا منچ (ہندو متحد تحریک) بنائی جس کا دعویٰ ہے کہ گرفتار شدہ ملزمان بے گناہ ہیں۔[16]
واقعات |
|
---|---|
مجرمین |
|
دیگر مضامین |
|