کابینہ پاکستان

پاکستان کی کابینہ وزیر اعظم کی زیر قیادت وزراء کی وہ جماعت ہے جو حکومت چلانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ وزرا کی مجلس کی صدارت وزیر اعظم کرتا ہے۔ تکنیکی طور پر یہ حکومت پاکستان کی کلی خود مختار مجلس ہے۔

کابینہِ پاکستان
Cabinet of Pakistan
کابینہِ پاکستان

اسلامی جمہویہ پاکستان کی ریاستی علامت
ایجنسی کا جائزہ
قیام14 اگست 1947؛ 76 سال قبل (1947-08-14)
قسموفاقی حکومت کا اعلیٰ ترین انتظامی ادارہ
دائرہ کارحکومت پاکستان
صدر دفتراسلام آباد
محکمہ افسرانِ‌اعلٰی
تحت ایجنسی
  • حکومت پاکستان کی وزارتیں
ویب سائٹwww.gov.pk

کابینہ سیکرٹری کابینہ سیکرٹریٹکے انتظامی سربراہ کے طور پر کام کرتا ہے اور براہ راست وزیر اعظم کو رپورٹ کرتا ہے۔[1] آئین پاکستان کے مطابق، وزیر اعظم کابینہ کے اراکین کو تحریری طور پر برطرف کر سکتا ہے اور نئے تقرریوں کی دوبارہ پارلیمنٹ سے منظوری لینی ہوتی ہے۔ کابینہ کا اجلاس ہفتہ وار اسلام آباد میں ہوتا ہے۔ کابینہ کو آئینی اختیار آئین پاکستان کے آرٹیکل 81ڈی کے تحت دیا گیا ہے۔[2] کابینہ کا وجود وزیر اعظم لیاقت علی خان سے شروع ہوا، جس نے اپنی پہلی کابینہ میں سرکاری ملازمین اور سیاست دانوں کا تقرر کیا۔ 10 اپریل 2022 کو، شہباز شریف کی وزارت پاکستان کی قومی اسمبلی کی طرف سے شریف کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد قائم کی گئی۔[3][4]

آئینی اختیارات

وزراء کی ایک کابینہ ہوگی، جس کے سربراہ وزیر اعظم ہوں گے، جو صدر کو اس کے امور کی انجام دہی میں مدد اور مشورہ دے گی۔ کابینہ، وزرائے مملکت کے ساتھ، سینیٹ اور قومی اسمبلی کو اجتماعی طور پر ذمہ دار ہوگی۔ کوئی وزیر جو مسلسل چھ ماہ تک قومی اسمبلی کا رکن نہ رہے، اس مدت کے ختم ہونے پر، وزیر نہیں رہے گا اور اس اسمبلی کی تحلیل سے پہلے اسے دوبارہ وزیر مقرر نہیں کیا جائے گا جب تک کہ وہ دوبارہ منتخب نہ ہو جائے۔ اس اسمبلی کا رکن: بشرطیکہ اس شق میں کوئی بھی چیز ایسے وزیر پر لاگو نہیں ہوگی جو سینیٹ کا رکن ہو۔ بشرطیکہ وفاقی وزراء اور وزرائے مملکت کی تعداد جو سینیٹ کے ارکان ہوں کسی بھی وقت وفاقی وزراء کی تعداد کے ایک چوتھائی سے زیادہ نہیں ہو گی۔

—آرٹیکل 81سی-96ڈی: فیڈریشن آف پاکستان؛ حصہ III، باب 3: وفاقی حکومت, آئین پاکستان[5]

موجودہ کابینہ

شہباز شریف نے4 مارچ 2024ء کو وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔[6]

پاکستان میں وزیر اعظم اپنے کابینہ کے وزیر کی سمری صدر کو بھیجتے ہیں جو اس کی منظوری دیتے ہیں اور کابینہ کے وزرا سے عہدے کا حلف لیتے ہیں۔

وفاقی وزرا
دفاترعہدہ داردفتر سنبھالا
وزیراعظمشہباز شریف04 مارچ 2024
وزارت دفاع، دفاعی پیداوار اور ہوا بازیخواجہ محمد آصف11 مارچ 2024
وزارت خارجہ امورمحمد اسحاق ڈار11 مارچ 2024
وزارت منصوبہ بندی و ترقیاحسن اقبال چوہدری11 مارچ 2024
وزارت صنعت و پیداواررانا تنویر حسین11 مارچ 2024
وزارت بیرون ملک مقیم پاکستانی و انسانی وسائلاعظم نذیر تارڑ11 مارچ 2024
وزارت نجکاری , بورڈ آف انوسٹمنٹعلیم خان11 مارچ 2024
وزارت تجارتجام کمال خان11 مارچ 2024
وزارت ریاستی و سرحدی امورامیر مقام11 مارچ 2024
وزارت ریلوےسردار اویس احمد خان لغاری11 مارچ 2024
وزارت اطلاعات و نشریاتعطا اللہ تارڑ11 مارچ 2024
وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی، وفاقی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیتڈاکٹر۔ خالد مقبول صدیقی11 مارچ 2024
وزارت سمندری امورقیصر احمد شیخ11 مارچ 2024
وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکسمیاں ریاض حسین پیرزادہ11 مارچ 2024
وزارت پٹرولیم اور بجلیمصدق ملک11 مارچ 2024
وزارت خزانہ اور محصولاتمحمد اورنگزیب11 مارچ 2024
وزارت اقتصادی امور اور اسٹیبلشمنٹاحد خان چیمہ11 مارچ 2024
وزارت داخلہ اور انسداد منشیاتمحسن نقوی11 مارچ 2024
وزیر مملکت
دفترعہدے داردفتر سنبھالا
وزارت اطلاعاتی ٹیکنالوجی و ٹیلی مواصلاتشزہ فاطمہ خواجہ11 مارچ 2024

2009ء کابینہ

26 جنوری 2009ء کو چار نئے وفاقی وزراء کی جانب سے عہدے سنبھالنے کے بعد وفاقی وزراء کی کل تعداد 41 ہو گئی تاہم 16 دسمبر 2009ء کو نئے اعلان کے بعد یہ تعداد 39 رہ گئی۔ ان چار وزراء میں سے دو کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ اور دو کا جمعیت علمائے اسلام ف سے تھا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ مرکز میں اتحادی حکومت کا حصہ بنی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے لیے حکومت نے وزارت محنت، افرادی قوت اور سمندر پار پاکستانی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور اس طرح محنت و افرادی قوت کی وزارت الگ اور سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت الگ کر دی گئی۔ موخر الذکر وزارت کے علاوہ بندرگاہوں اور جہاز رانی کی وزارت بھی متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے وزراء کو ملی۔ ان وفاقی وزراء کے علاوہ وزرائے مملکت کی تعداد 17 ہے۔ اس تازہ ترین تبدیلی کے بعد کابینہ کے اراکین میں پاکستان پیپلز پارٹی کے 42، جمعیت علمائے اسلام ف اور عوامی نیشنل پارٹی کے 3،3، متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان مسلم لیگ ف اور قبائلی علاقہ جات کے 2،2 اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے ایک، ایک رکن کابینہ کا حصہ ہیں جبکہ ایک رکن آزادامیدوار ہیں۔ اس طرح وزراء کی کل تعداد 58 ہے۔

فروری 2009ء میں خواجہ محمد خان ہوتی نے اپنی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت سے اختلافات کے باعث انسداد منشیات کی وزارت سے استعفی دے دیا۔

2009ء میں ہی رحمٰن ملک کو مشیر داخلہ سے وزیر داخلہ قرار دے دیا گیا کیونکہ ایوان بالا سینیٹ کے رکن بن گئے۔ علاوہ ازیں فاروق نائیک کے چیئرمین سینیٹ بننے کے بعد سید مسعود کوثر کو مشیر قانون و انصاف قرار دے دیا گیا۔ اسی سال رضا ربانی اور شیری رحمٰن نے بھی مبینہ طور پر جماعت کی قیادت سے اختلاف کے باعث کابینہ سے استعفا دے دیے۔[7][8] شیری رحمٰن کی جگہ قمر زمان کائرہ کو وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات بنایا گیا۔

ڈاکٹر عاصم حسین کے استعفے کے بعد حکومت نے اگست 2009ء میں وزیر برائے تیل و قدرتی وسائل سید نوید قمر کو وزارت نجکاری کا اضافی عہدہ عطا کیا۔[9] تاہم دسمبر 2009ء میں وفاقی کابینہ میں ایک مرتبہ پھر رد و بدل کرتے ہوئے حکومت نے ان سے یہ عہدہ وقار احمد خان کو منتقل کر دیا گیا جو پہلے وزیر سرمایہ کاری کے فرائض انجام دے رہے تھے[10] علاوہ ازیں دسمبر 2009ء میں دیگر تبدیلیوں میں میر ہزار خان بجارانی سے وزارت تعلیم کا قلمدان واپس لے کر انہيں وزیر صنعت و پیداوار بنا دیا گیا جبکہ وزیر صنعت و پیداوار منظور وٹو کو وزارت امور کشمیر و شمالی علاقہ جات کا قلمدان سونپ دیا گیا۔ حکومت نے ساتھ ہی وزارت سرمایہ کاری اور وزارت ترقیات و منصوبہ بندی کے خاتمے کا بھی اعلان کیا اور ان محکموں کو وزیر اعظم کے ماتحت کر دیا[10]۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات