پاکستان کے عام انتخابات، 2013ء

پاکستان کے عام انتخابات 2013ء، پاکستان کی قومی اسمبلی کے چودہویں انتخابات ہفتہ, مئی 11, 2013 کو ہوئے ۔ پاکستانی حکومت کے اعلان کے مطابق، انتخابات کی تاریخ 11 مئی 2013ء رکھی گئی۔ تاریخ کبھی 7 مئی، تو کبھی 15 مئی[3] کی بھی بتائی گئی۔ یہ انتخابات قومی اسمبلی، پارلیمان کے ایوان زیریں کی نشستوں اور چار صوبائی اسمبلیوں (پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا) کے اراکین کے انتخابات کے لیے پاکستان کے تمام انتخابی حلقوں میں انعقاد پزیر ہوئے تھے۔

پاکستان کے عام انتخابات، 2013ء

→ 2008ء11 مئی 20132018ء ←

قومی اسمبلی پاکستان کی کُل 342 نشستیں
اکثریت کے لیے 172 درکار نشستیں
ٹرن آؤٹ55.02%[1] (Increase 11.01pp)
 پہلی بڑی جماعتدوسری بڑی جماعتتیسری بڑی جماعت
 
قائدنواز شریفآصف علی زرداریعمران خان
جماعتپاکستان مسلم لیگ (ن)پاکستان پیپلز پارٹیپاکستان تحریک انصاف
قائد از17 اگست 198830 دسمبر 200725 اپریل 1996
قائد کی نشستنہیں لڑا
آخری انتخابات89 نشستیں، 19.65%118 نشستیں، 30.79% بائیکاٹ کر دیا تھا
نشستیں جیتیں1664235
نشستوں میں اضافہ/کمیIncrease 77کم 76Increase 35
عوامی ووٹ14,874,1046,911,2187,679,954
فیصد32.77%15.32%16.92%

عام انتخابات کے نتائج[2]

وزیر اعظم قبل انتخابات

راجہ پرویز اشرف
پاکستان پیپلز پارٹی

منتخب وزیر اعظم

نواز شریف
پاکستان مسلم لیگ (ن)

گذشتہ حکومت کی مدت 16 مارچ 2013ء کو مکمل ہو چلی تھی اور اِس حکومت کو 2008ء کے عام انتخابات کے بعد 5 سال کا عرصہ بھی بِیت چُکا تھا۔ آئین کے آرٹیکل 52 کے تحت، 17 مارچ کو قومی اسمبلی کی تحلیل ہو گئی اور 19 مارچ کو صوبائی اسمبلیوں کی بھی تحلیل ہو گئی؛ چنانچہ اِسی آئین کے مطابق، اسمبلیوں کی تحلیل کے 60 دنوں بعد (یا 2 مہینوں بعد)[4]کے دورانئے میں ہی نئے انتخابات کا انعقاد ہو جانا چاہیے۔ 1962ء کے بعد یہ پاکستان کی تاریخ کے گیارہویں عام انتخابات ہیں اور ممکنہ طور پر پہلے ایسے انتخابات ہیں جہاں پاکستان کی دو منتخب حکومتوں کے درمیان میں جمہوری تبادلہ ہوتا ہوا دکھے گا۔

یہ انتخابات پاکستان پیپلز پارٹی کی تیسری منتخب حکومت کے اختتام کی نشان دہی کرتے ہیں اور چنانچہ اِس اعتبار سے یہ پاکستان کی وہ پہلی حکومت ٹھہری جس نے اپنی کُل جمہوری مُدّت پوری کی۔ اشتراکی جمہوری سوچ رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی نے اس انتخاب کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ق) سے اتحاد کیا؛ جبکہ قدامت پسند سوچ کی حامل پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پاکستان مسلم لیگ (ف) اور سنی تحریک سے اتحاد کا اظہار کیا۔ سابقہ کرکٹ کھلاڑی عمران خان کی قیادت میں اعتدال پسند پاکستان تحریک انصاف نے جماعت اسلامی اور بہاولپور قومی عوامی پارٹی سے اتحاد کیا۔

یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ تقریباً 8.6 کروڑ اندراج شدہ ووٹر قومی و صوبائی اسمبلیوں کے کم و بیش 1,000 اراکین کا انتخاب کریں گے۔ منتخب اراکین پھر قومی سطح پر وزیر اعظم کا اور صوبائی سطح پر ہر صوبے کے وزیر اعلیٰ کا انتخاب کریں گے۔

پاکستانی سیاست کا جائزہ

پاکستان کی سیاست برطانوی سیاست پر مبنی ہے اور جمہوری پارلیمانی نظام کے ویسٹ منسٹر ماڈل کی پیروی کرتی ہے۔ عالمگیر بالغ متادکار کے تحت اراکین کو ووٹوں کی اکثریت پر منتخب کیا جاتا ہے جہاں ہر نمائندہ ایک انتخابی ضلع کی نمائندگی کرتا ہے؛ اِن انتخابی اضلاع کو پارلیمانی حلقے بھی کہا جاتا ہے۔ آئین کے مطابق، خواتین اور مذہبی اقلیتوں کے لیے 70 نشستیں مخصوص کی جاتی ہیں۔ اِن نشستیں کو سیاسی جماعتوں کے لیے اِن کی متناسب نمائندگی کے مطابق مختص کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں انتخابات کی دوران میں کسی بھی سیاسی جماعت کو اکثریت حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اکثریت کے لیے کسی ایک جماعت کو قومی اسمبلی میں 172 نشستیں (یعنی کل نشستیں کا 51 فیصد) حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو سکے تو پارلیمان کا موازنہ متردد ہو جاتا ہے اور سیاسی نمائندگان کو اتحادوں کا سہارا لینا پڑ جاتا ہے۔ ایسی پارلیمان کو ہنگ پارلیمان کہا جاتا ہے۔

جماعتوں کی فہرست

انتخابات میں لڑنے والی جماعتوں کی فہرست کے لیے، مندرجہ ذیل ملاحظہ کیجیے۔

  • پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز: یہ جماعت دراصل جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی ایک انتخابی توسیع ہے۔ اس جماعت کی بنیاد 2002ء میں جناب مخدوم امین فہیم نے ڈالی۔ 2013ء کے انتخابات سے پہلے یہ جماعت حکومتی اتحاد کا حصہ تھی اور اکثریت کی بنیاد پر وفاق میں سب سے بڑی جماعت بھی تھی۔ صوبہ سندھ میں اس جماعت کی حکومت بھی تھی جبکہ پنجاب میں حزب اختلاف کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی حکومتوں میں یہ ایک اتحادی ساتھی کے طور پر رہی۔ ان انتخابات میں پہلے کی طرح اس جماعت کا سیاسی نعرہ اور مینڈیٹ ”روٹی، کپڑا اور مکان“ ہی رہا۔ اس جماعت پر اکثر یہی تنقید ہوتی رہی کہ 2013ء کے انتخابات کے دوران میں اپنی مہموں کو ذریعے یہ سیاسی شہدا (ذولفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو، وغیرہ) کی یادیں اجاگر کر کہ ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ سیکورٹی خدشات کے زیر نظر، جماعت کے باہمی چیئرمین بلاول بھٹو ذاتی طور پر جلسوں میں شرکت نہ کر سکے۔ پاکستان کے موجودہ صدر ہونے کے ناتے، جماعت کے دوسرے باہمی چیئرمین جناب آصف علی زرداری انتخابی مہم میں حصہ لینے سے قاصر رہے اور انتخابی عمل سے دوری اختیار رکھی۔ پاکستانی سینیٹ میں اس جماعت کے پاس 41 نشستیں ہیں۔
  • پاکستان مسلم لیگ (ن): حزب اختلاف میں بیٹھی پاکستان مسلم لیگ (ن)، صوبہ پنجاب کی حکومت میں بھی تھی۔ اس کے سربراہ جناب میاں نواز شریف تھے اور ان کے بھائی جناب شہباز شریف، انتخابات سے پہلے، پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ اکثر تجزیہ نگاروں کے مطابق، پاکستان مسلم لیگ (ن) ملک کی سب سے بڑی جماعت اُبھرتی دکھ رہی تھی۔[5] انتخابی مہم میں جاتے ہی دیگر مخالف جماعتوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) پر کرپشن اور بدعنوانی کے الزام بھی لگائے۔[6] پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ نے اس جماعت کو ”پنجاب کی جماعت“ قرار دے دیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کا انتخابی نعرہ "بدلیں گے پاکستان" رہا، جو پاکستان تحریک انصاف کے ”تبدیلی“ کے نعرے کے بالکل برعکس تھا۔
  • پاکستان تحریک انصاف: سابق کرکٹ کھلاڑی عمران خان کی سربراہی میں پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت کے طور پر 25 اپریل 1996ء کو قائم ہوئی۔ 31 اکتوبر 2011ء کو لاہور میں ایک عظیم جلسہ کرنے کے بعد، یہ جماعت ملکی سیاست میں ایک تیسری طاقت بن کر سامنے ابھر آئی۔ انتخابی مہم میں اس جماعت کا زیادہ تر دہان پنجاب کے حلقوں پر رہا اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے براہ راست مقابلے پر آ کھڑی ہوئی۔ خیبر پختونخوا میں نسبتاً اس جماعت کا اثر کافی عیاں تھا؛ تاہم، بلوچستان اور سندھ کی سیاست میں یہ جماعت زیادہ طاقتور نہ پائی گئی۔ پاکستان تحریک انصاف نے 2008ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ 2013ء کے انتخابات میں اس جماعت کا نعرہ ”تبدیلی“ کا رہا اور عمران خان اس تبدیلی کو ”سونامی“ سے تشبیہ دیتے رہے۔ خان کے مطابق، یہ تبدیلی خاندانی اور موروثی سیاست کے خلاف آنے کو تھی۔ اکثر تجزیہ نگار اس جماعت کو سونامی کی عرفیت سے بھی پہچاننے لگے۔
  • متحدہ قومی موومنٹ: اس جماعت کا زیادہ تر رجحان سندھ کے شہری علاقوں کی مہاجر برادریوں میں دکھتا ہے۔ اس پارٹی کی قیادت 1978ء میں جناب الطاف حسین نے رکھی۔ اس کا نام تب آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹ ارگنائزیشن تھا؛ بعد از، اس کا نام مہاجر قومی موومنٹ اور پھر متحدہ قومی موومنٹ کر دیا گیا۔ سابقہ حکومت میں یہ جماعت اتحاد کا حصہ رہی۔ کچھ اختلافات کی بنا پر، یہ جماعت اتحاد سے نکل کر صوبہ سندھ میں حزب اختلاف میں جا بیٹھی۔ 2013ء کے انتخابات میں تحریک طالبان پاکستان نے اس جماعت کو اپنا ہدف بناتے ہوئے اسے اپنی انتخابی مہم کا نفاذ نہ کرنے دیا۔
  • پاکستان مسلم لیگ (ق):
  • آل پاکستان مسلم لیگ:
  • جماعت اسلامی:
  • عوامی نیشنل پارٹی:
  • جمعیت علمائے اسلام:

انتخابی عمل

انتخابات سے پہلے

انتخابات سے پہلے، یہ ہر ووٹر شہری کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے ووٹ کی بروقت تصدیق کر لیں اور اپنے منتخب پولنگ اسٹیشن کی نشان دہی کر لیں۔ ایسا ممکن بنانے کے لیے الیکشن کمیشن نے ایک مہم کا آغاز کیا۔ اس مہم کے ذریعے ایک عام فہم ووٹر اپنے موبائل فون سے نمبر 8300 پر ایس ایم ایس میں اپنا شناختی کارڈ نمبر ارسال کر کہ یہ معلوم کر سکتے تھے کہ آیا انکا نام ووٹنگ لسٹ پر موجود ہے یا نہیں اور ساتھ میں اپنے پولنگ اسٹیشن کا پتہ بھی جان سکتے تھے۔

انتخابات کے دن

انتخابات کے دن ہر حلقے کے لیے مخصوص پولنگ اسٹیشن صبح 8 بجے سے لے کر شام 5 بجے تک کھلے رہے۔ انتخابی عمل شروع ہونے سے پہلے ہی مندرجہ ذیل ہدایات الیکشن کمیشن نے ہر ووٹر تک پہنچا دین:

  • ہر ووٹر پر لازم ہوتا ہے کہ پولنگ اسٹیشن میں نادرا کا اصل کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ ساتھ لے کر جائے۔ شناختی کارڈ کے بغیر ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
  • نمبر 8300 سے موصول ہونے والے ایس ایم ایس میں درج شدہ معلومات سے ووٹر سے متعلقہ دیگر معلومات پیش کی گئیں تھی۔ ان معلومات کی مدد سے پولنگ اسٹیشن میں تعینات پریزائڈنگ افسران کے لیے کسی بھی انسان کی شناخت کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
  • ہر پریزائڈنگ افسر کے پاس اس حلقے کے لیے مخصوص ووٹروں کی ایک فہرست ہوتی ہے، جسے ووٹنگ لسٹ کہتے ہیں۔ اس فہرست میں ہر اندراج شدہ ووٹر کا شناختی کارڈ نمبر اور ان کی تصویر بھی چھاپی گئی ہوتی ہے تاکہ ان ووٹروں کی نشان دہی ہو سکے۔ ووٹنگ لسٹ میں نام مل جانے پر پریزائڈنگ افسر اونچی آواز میں ووٹر کا نام پکارتا ہے تاکہ پولنگ اسٹیشن میں موجود پولنگ ایجنٹ سن سکیں۔ اگر کسی پولنگ ایجنٹ کو اعتراض نہ ہو تو عمل جاری رہتا ہے۔
  • اس کے بعد ووٹر پھر دو اور اسسٹنٹ پریزائڈنگ افسران کے پاس جاتا ہے جہاں اسے ایک نو-خانہ ٹھپا دے دیا جاتا ہے۔
  • اسسٹنٹ پریزائڈنگ افسران تب ووٹر کو دو الگ بیلٹ پیپر تھمائے جاتے ہیں، جن میں ایک سبز (قومی اسمبلی کے امیدواروں کی فہرست) اور ایک سفید (صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کی فہرست) ہوتا ہے۔ پیپر دیتے ہوئے ان کی پشت پر اسسٹنٹ پریزائڈنگ افسر ایک منفرد نمبر والی مہر لگا کر اس کے نشان پر اپنا دستخط کرتا ہے۔ ساتھ ہی میں افسر ووٹر کے انگوٹھے کا نشان بھی لیا جاتا ہے۔
  • بعد از ایک اور افسر ووٹر کے انگوٹھے کے ناخون کے نیچے انمٹ سیاہی سے نشان زد کر دیتا ہے۔
  • ووٹر بیلٹ پیپر لے کر پردے کے پیچھے رازداری میں اپنا انتخاب کرتا ہے۔
  • پھر ووٹر سبز پیپر کو سبز بیلٹ بکس میں اور سفید کو سفید بیلٹ بکس میں ڈال آتا ہے۔ یوں ووٹر کا انتخاب درج ہو جاتا ہے۔

نظام الاوقات

  • 30 جولائی 2012ء: پاکستان الیکشن کمیشن کے مطابق پاکستان کے عام انتخابات 11 مـئی 2013ء پاکستان کے آئین کے مطابق ہوں گے اور اپنے وقت پر ہوں اور موجودہ اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کریں گی۔[7]
  • 1 اگست 2012ء: الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابات کے لیے حلقوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔
  • 14 دسمبر 2012ء: عدالت عظمیٰ کے احکامات کے مطابق حلقوں کی حد بندی کرنے کے لیے ووٹروں کی در بہ در تصدیق افواج پاکستان کی مدد سے کی جائے گی۔[8]
  • 17 جنوری 2012ء: الیکشن کمیشن نے ووٹروں کی در بہ در تصدیق شروع کر دی۔
  • 3 فروری 2013ء: صدر آصف علی زرداری نے باضابطہ اعلان کر دیا کہ انتخابات 8 تا 14 مـئی 2013ء کے دورانئے میں ہی ہوں گے۔[9]
  • 17 مارچ 2013ء: قومی اسمبلی کی تحلیل ہو گئی۔[4]
  • 19 مارچ 2013ء: صوبائی اسمبلیوں کی بھی تحلیل ہو گئی۔[4]
  • 24 مارچ 2013ء: نگران حکومت کا قیام ہوا اور میر ہزار خان کھوسو کو عبوری وزیر اعظم مقرر کر دیا گیا۔
  • 31 مارچ 2013ء: کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ۔

امن و امان اور قانون کی صورت حال

نگراں وفاقی وزیرِ اطلاعات عارف نظامی نے غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنانا انتخابی عمل کا سب سے بڑا خطرہ ہے۔[10] دیگر انتخابی سرگرمیوں کے انعقاد سے قبل چیف الیکشن کمشنر جناب فخرالدیں جی ابراہیم نے اس خدشے کا اظہر کیا کے انتخابی عمل کے شفاف ہونے میں قانون کی بالادستی اور امن و امان کی صورت حال کا درست ہونا درکار ہے۔[11] کراچی شہر میں دیگر دہشت گردی کے واقعات کے بعد متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی منظم طور پر اپنی اپنی مہم کو نہ چلا سکیں۔

  • 11 اپریل 2013ء: متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما اور انتخابی امیدوار فخرالاسلام کو حیدرآباد میں نامعلوم مسلح افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔[12]
  • 14 اپریل 2013ء: سوات میں عوامی نیشنل پارٹی کے ایک مقامی لیڈر کی بم دھماکے میں ہلاکت ہو گئی۔[12]
  • 16 اپریل 2013ء: عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما غلام بلور کی گاڑی کے سامنے خودکش دھماکا ہوا اور وہ بال بال بچ گئے؛ البتہ، 16 (یا 17[12]) لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔[13]
  • 25 اپریل 2013ء: دہشت گردی کے جاری واقعات میں کراچی، بلوچستان کے ضلع نوشکی اور خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں بارہ اور لوگ ہلاک ہوئے جن میں چھ سیاسی کارکنان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے چار اہلکار بھی شامل ہیں۔[12]
  • 26 اپریل 2013ء: اے این پی کے دفاتر پر موٹر سائیکل میں چھپے بم کے دھماکے سے 9 تا 10 لوگوں کی ہلاکت ہوئی؛ کسی جماعت یا کالعدم تنظیم نے ذمہ داری قبول نہ کی۔[12][14]
  • 27 اپریل 2013ء: کراچی میں تین بم دھماکوں میں کم از کم چھ افراد ہلاک ہو گئے اور 50 اور لوگ زخمی ہو گئے۔ زخمیوں میں شامل حلقہ پی ایس۔111 سے کھڑے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار عدنان بلوچ بھی تھے۔ اِن میں سے دو دھماکے متحدہ قومی موومنٹ کے دفاتر کے باہر ہوئے۔[12]
  • 28 اپریل 2013ء: متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے پولنگ دفاتر کے باہر دھماکے ہوئے جن میں 4 افراد جان بحق اور کم و بیش 50 زخمی ہوئے۔[12]
  • 28 اپریل 2013ء: گجر خان میں پاکستان تحریک انصاف کے دو کارکنوں کو گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔[12]
  • 28 اپریل 2013ء: کوہاٹ میں ایک دھماکے کے نتیجے میں حلقہ این اے۔39 (اورکزئی ایجنسی) سے آزاد انتخابی امیدوار، سید نور اکبر اور حلقہ این اے۔14 سے عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار، خورشید بیگم کا مشترکہ دفتر تباہ ہو گیا جس میں 5 افراد ہلاک ہو گئے۔ دونوں امیدوار سلامت رہے۔[12]
  • 28 اپریل 2013ء: پشاور میں ناصر خان آفریدی کے دفتر میں تین لوگوں کی اموات واقعہ ہوئیں۔[12]
  • 28 اپریل 2013ء: صوابی میں عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار امیر الرحمن کی انتخابی ریلی کے دوران میں ایک دھماکے میں دو افراد ہلاک ہو گئے۔ اس ضبطِ بعید بم دھماکے کے نتیجے میں 5 لوگ زخمی بھی ہوئے۔[12]
  • 28 اپریل 2013ء: امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور انہی خدشات کی بناہ پر متحدہ قومی موومنٹ نے اپنی کارکن خواتین کے جلسے کو منسوخ کر دیا۔[12]
  • 28 اپریل 2013ء: ضلع نوابشاہ میں بکشل جمالی پھاٹک پر ریلوے پٹری کے ایک حصّے کو بم دھماکے سے تباہ کر دیا گیا۔[12]
  • 3 مئی 2013ء: کراچی کے علاقے بلال کالونی میں عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار صادق زمان خٹک کو ان کے 6 سالہ بیٹے سمیت گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا اور دونوں کی موقع پر ہی وفات ہو گئی۔[15] تاہم، کراچی کے حلقے این اے۔254 پر مقابلہ الیکشن کمیشن نے ملتوی کر دیا۔
  • 4 مئی 2013ء: کراچی کے علاقوں عزیزآباد اور کریم آباد میں متحدہ قومی موومنٹ کے دفاتر پر پاکستان تحریک طالبان کی طرف سے دو دھماکے کیے گئے۔[16]
  • 4 مئی 2013ء: مولانا فزل الرحمان نے ایک سیاسی فتویٰ جاری کیا جس میں انھوں نے عمران خان کو ووٹ دینا گُناہ قرار کر دیا۔[17]
  • 5 مئی 2013ء: پولیس نے دیر زیریں میں 90,000 جعلی بیلٹ کاغذات ضبط کر لیے۔ ان جعلی کاغذات کو حلقہ این اے۔34 لے جایا جا رہا تھا۔[18]
  • 5 مئی 2013ء: جماعت اسلامی کے سربراہ منور حسن کہتے ہیں کے اعتدال پسند لوگوں کو اقلیتوں کے طور پر ووٹ درج کروانے چاہیے۔[19]
  • 6 مئی 2013ء: چارسدہ کے علاقے شب قدر مرزئی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے انتخابی دفتر پر حملہ ہوا جس میں ایک شخص زخمی ہو گیا۔[20]
  • 6 مئی 2013ء: پاکستان پیپلز پارٹی نے متحدہ قومی موومنٹ پر حیدرآباد کے حلقوں کی تقسیم اور انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کر دیا۔[21]
  • 6 مئی 2013ء: ہنگو کے علاقے دوآبہ بازار میں جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار مُنیر اورکزئی کے جلسے کے دوران میں ایک دھماکے میں 11 افراد ہلاک ہو گئے اور تقریباً 35 زخمی۔[22]
  • 7 مئی 2013ء: دیر زیریں کے علاقے بابا گام میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ریلی کے دوران میں ضبطِ بعید بم دھماکے کے نتیجے میں چھ افراد ہلاک ہو گئے۔[23]
  • 7 مئی 2013ء: لاہور میں پاکستان تحریک انصاف کے ایک جلسے میں جب جماعت کے بانی عمران خان کو کنٹینر پر فورک لفٹ کے ذریعہ اٹھایا جا رہا تھا تو وہ اپنے تین محافظ سمیت پھسل کر 12 فٹ کی اونچائی سے گر پڑے۔ ہمدردیوں کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اور متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین نے اپنے 8 مئی کے تمام جلسے ملتوی کر دیے۔[24]
  • 7 مئی 2013ء: فیصل آباد میں آزاد امیدوار، محمد امجد ربانی کے بيوقت انتقال کے نتیجے میں حلقوں این اے۔83 اور پی پی۔51 پر انتخابات ملتوی کر دیے گئے۔[25]
  • 9 مئی 2013ء: انتخابی مہم رات کے بارہ بجے اپنے اختتام کو پہنچی۔ 10 مئی 2008ء میں داخل ہوتے ساتھ ہی تمام جماعتوں کو انتخابات کے دن تک کسی بھی طرح کے جلوس و اجلاس کرنا ممنوع ہو گیا۔
  • 10 مئی 2013ء: صوابی کے علاقے خاص میں عوامی نیشنل پارٹی کے دفتر کے باہر ایک بم دھماکا ہوا۔

11 مئی 2013ء – انتخاب کا دن

الیکشن کمیشن کا کردار

عالمی ادارہ برائے انعقاد انتخابات نے 16 عالمی تنظیموں کی جانب سے مرتب کردہ 32 نکات پر مشتمل ترجیحات و اصلاحات الیکشن کمیشن پاکستان کے لیے مختص کیں۔[26] 2006ء میں اِس ادارے نے امریکی ترقیاتی ادارے یو ایس ایڈ کی مدد سے حکومت پاکستان کو 9 ملین ڈالر کی خطیر رقم فراہم کی۔ اِس رقم سے پاکستان میں کمپیوٹرائزد انتخابی عمل کا قیام ممکن بنایا گیا۔[27] اِس کمپیوٹرائزد نظام کو "ریزلٹ مینجمنٹ سسٹم" کا نام دیا گیا۔

2008ء کے انتخابات میں تو الیکشن کمیشن کُچھ خاص خدمات انجام نہ دے سکا؛ البتہ، 2008 تا 2013ء حکومت میں اِس الیکشن کمیشن کو خوب اختیارات ملے جس کی وجہ سے پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ تھا کے ایک الیکشن کمیشن اتنا خود مختار اور آزاد ادارہ بن کر اُبھرا۔

مارچ 2013ء کے مہینے میں ہی الیکشن کمیشن نے آئندہ عام انتخابات کے لیے اپنی حتمی تیاریوں کو اختتام تک پہنچایا۔ اِن تیاریوں میں سب سے اہم کام 500,000 بیلٹ بکسوں اور انتخابات سے متعلقہ مواد کا حصول تھا۔ کمیشن نے انتخابات سے متعلق مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کے لیے مستقل طور پر الیکشن ٹربیونل قائم کیے۔ اِن الیکشن ٹربیونلوں کے لیے کمیشن نے ہائی کورٹ کے دیگر ریٹائرڈ جج حضرات کی خدمات لینے کا بھی فیصلہ کیا۔ اِن میں پانچ ٹربیونل صوبۂ پنجاب کے لیے اور بقیہ صوبوں کے لیے تین تین ٹربیونل کا قیام کیا گیا۔ الیکشن ٹربیونل کی خدمات کے لیے الیکشن کمیشن نے کئی شہروں میں عمارتیں بھی کرائے پر حاصل کیں۔

پولنگ اسٹیشنوں کی منصوبہ بندی

الیکشن کمیشن کے فرائض میں ایک اہم فرض پولنگ اسٹیشنوں پر انتخابات کے دن سے متعلق منصوبہ بندی کرنا بھی شامل تھا۔ الیکشن کمیشن نے دیگر پولنگ سٹیشنوں کی نشان دہی کی اور بیشمار پولنگ اسٹیشنوں کو حساس قرار دیتے ہوئے وہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تعیناتی کو یقینی بنایا۔

#انتخابی صوبہحساس ترین اسٹیشنحساس اسٹیشنمعمولی اسٹیشنکُل تعداد بلحاظ صوبہ
1خیبر پختونخوا2,1403,4103,7569,306
2قبائلی علاقہ جات2433855801,208
3وفاق1218518548
4پنجاب8,4394,46327,10640,008
5سندھ3,0645,7026,21414,980
6بلوچستان1,7831,2366603,679
کُل اسٹیشنوں کی تعداد15,68115,21438,83469,729

صاف اور شفاف انتخابات

قبل از 2013ء انتخابات، ووٹوں کی گنتی کے بعد کے اعداد و شمار کو ایک کاغذی پرچی پر لکھا جاتا تھا۔ اِس طریقے کو استعمال کر کے تبدیلی کے ذریعے ممکنہ داھاندلی کی گنجائش موجود رہتی تھی۔ 2013ء کے انتخابات میں الیکشن کمیشن نے مخصوص پریسکرپشں فارم متعارف کرائے جن پر اعداد و شمار درج کیے جائیں گے۔ ایک دفعہ جب اِن فارموں پر اعداد درج کر دیے جائیں گے تب اِن میں تبدیلی کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ اِن فارموں کو بھرنے کے بعد اِن کی ایک کاپی کو پولنگ اسٹیشن کے باہر چسپاں کیا جائے گا اور ایک کاپی کو الیکشن کمیشن ارسال کر دیا جائے گا۔ ارسال ہونے والی کاپی کو پلاسٹک کے ایک خاص شفاف لفافے میں ڈالا جائے گا جس کے ساتھ دست اندازی کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ لفافے الیکشن کمیشن نے یو این ڈی پی کے تعاون سے حاصل کیے۔

نگران حکومت کا قیام

آئین کے مطابق، گذشتہ حکومت اور پارلیمان کی مدت کے گذر جانے پر ایک نگران حکومت کو نافذ کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ چنانچہ، انتخابات سے قبل جب اسمبلیوں کی تحلیل کی جا رہی تھی تو ایک نگران حکومت کا قیام بھی کیا گیا۔ حکومت اور حزبِ اختلاف میں بیٹھی پارٹیوں سے مشاورت کے بعد، 24 مارچ 2013ء کو الیکشن کمیشن نے سابقہ جج اور سیاست دان میر ہزار خان کھوسو کو عبوری وزیر اعظم مقرر کر دیا۔

اندراج شدہ رائے دہندگان

مندرجہ ذیل پاکستان کے تمام اضلاع کے رائے دہندگان کی تعداد کی ایک مکمل فہرست ہے۔

  • پاکستان میں الیکشن کے لیے اندراج شدہ رائے دہندگان کی کُل تعداد: 86,194,802
  • سب سے بڑا صوبہ بلحاظ رائے دہندگان: صوبۂ پنجاب
  • کراچی کے پانچ اضلاع ملا کر، اِس شہر میں رائے دہندگان کی کُل تعداد 7,171,237 ہے۔ کراچی میں رائے دہندگان کی کُل تعداد صوبۂ بلوچستان کے اندراج شدہ رائے دہندگان سے زیادہ ہیں؛ چنانچہ، یہ رائے دہندگان نِسبتاً پاکستان کے کسی بھی شہر یا ضلع کے رائے دہندگان سے زائد ہیں۔
#انتخابی صوبہرائے دہندگانکُل تعدادفیصدی
مردانہزنانہ
1  خیبر پختونخوا7,008,5335,257,62412,266,15714.23%
2  قبائلی علاقہ جات1,142,234596,0791,738,31302.02%
3  وفاقی علاقہ337,900288,064625,96400.73%
4  پنجاب27,697,70121,561,63349,259,33456.76%
5  سندھ10,490,6318,472,74418,963,37522.00%
6  بلوچستان1,915,38856,3873,336,65903.87%
کُل رائے دہندگان48,592,38737,597,41586,189,802100.00%
صوبہضلعرائے دہندگان
خیبر پختونخواایبٹ آباد675,188
خیبر پختونخوابنوں444,059
خیبر پختونخوابٹگرام204,980
خیبر پختونخوابونیر360,019
خیبر پختونخواچارسدہ704,680
خیبر پختونخواچترال206,909
خیبر پختونخواڈیرہ اسماعیل خان606,959
خیبر پختونخواہنگو214,703
خیبر پختونخواہری پور531,866
خیبر پختونخواکرک315,087
خیبر پختونخواکوہاٹ409,372
خیبر پختونخواکوہستان127,015
خیبر پختونخوالکی مروت330,274
خیبر پختونخوادیر زیریں541,565
خیبر پختونخوامالاکنڈ311,172
خیبر پختونخوامانسہرہ742,674
خیبر پختونخوامردان987,122
خیبر پختونخوانوشہرہ619,914
خیبر پختونخواپشاور1,393,144
خیبر پختونخواشانگلہ296,722
خیبر پختونخواصوابی714,454
خیبر پختونخواسوات981,823
خیبر پختونخواٹانک150,585
خیبر پختونخواتور غر64,867
خیبر پختونخوادیر بالا331,004
قبائلی علاقہ جاتباجوڑ ایجنسی353,554
قبائلی علاقہ جاتقبائلی بنوں9,482
قبائلی علاقہ جاتقبائلی ڈیرہ اسماعیل خان22,269
قبائلی علاقہ جاتقبائلی کوہاٹ41,070
قبائلی علاقہ جاتقبائلی لکی مروت9,939
قبائلی علاقہ جاتقبائلی پشاور23,371
قبائلی علاقہ جاتقبائلی ٹانک15,581
قبائلی علاقہ جاتخیبر ایجنسی336,763
قبائلی علاقہ جاتکرم ایجنسی262,021
قبائلی علاقہ جاتمہمند ایجنسی177,244
قبائلی علاقہ جاتشمالی وزیرستان160,666
قبائلی علاقہ جاتاورکزئی ایجنسی125,687
قبائلی علاقہ جاتجنوبی وزیرستان200,666
پنجاباٹک1,022,180
پنجاببہاولنگر1,264,077
پنجاببہاولپور1,522,061
پنجاببھکر711,837
پنجابچکوال929,747
پنجابچنیوٹ602,290
پنجابڈيرہ غازى خان1,052,720
پنجابفیصل آباد3,622,748
پنجابگوجرانوالہ2,273,141
پنجابگجرات1,581,402
پنجابحافظ آباد543,646
پنجابجھنگ1,145,415
پنجابجہلم783,571
پنجابقصور1,463,575
پنجابخانیوال1,301,926
پنجابخوشاب680,471
پنجابلاہور4,410,095
پنجابلیہ736,509
پنجابلودھراں727,177
پنجابمنڈی بہاؤالدین815,154
پنجابمیانوالی757,191
پنجابملتان2,110,177
پنجابمظفر گڑھ1,681,436
پنجابننکانہ صاحب623,625
پنجابنارووال792,379
پنجاباوکاڑہ1,396,811
پنجابپاکپتن823,478
پنجابرحیم یار خان1,904,615
پنجابراجن پور724,286
پنجابراولپنڈی2,645,608
پنجابساہیوال1,190,424
پنجابسرگودھا1,861,804
پنجابشیخوپورہ1,341,341
پنجابسیالکوٹ1,841,347
پنجابٹوبہ ٹیک سنگھ1,089,508
پنجابوہاڑی1,285,562
سندھبدین639,314
سندھدادو609,609
سندھگھوٹکی568,065
سندھحیدرآباد923,140
سندھجیکب آباد394,557
سندھجامشورو369,424
سندھقمبر-شہدادکوٹ508,062
سندھکراچی وسطی1,632,487
سندھکراچی شرقی2,093,898
سندھکراچی جنوبی1,131,376
سندھکراچی غربی1,493,055
سندھکشمور353,616
سندھخیرپور838,502
سندھلاڑکانہ585,519
سندھملیر820,421
سندھمٹیاری300,486
سندھمیرپور خاص585,262
سندھنوشہرو فیروز600,090
سندھسانگھڑ793,397
سندھنواب شاہ668,193
سندھشکارپور488,878
سندھسکھر527,635
سندھٹنڈو الہ یار286,956
سندھٹنڈو محمد خان230,554
سندھتھرپارکر471,831
سندھٹھٹہ663,543
سندھعمرکوٹ385,505
بلوچستانآواران56,387
بلوچستانبارخان55,327
بلوچستانچاغی66,836
بلوچستانڈیرہ بگٹی63,953
بلوچستانگوادر93,650
بلوچستانہرنائی33,140
بلوچستانجعفر آباد247,316
بلوچستانجھل مگسی44,533
بلوچستانکچھی103,108
بلوچستانقلات104,445
بلوچستانکیچ173,972
بلوچستانخاران45,176
بلوچستانخضدار165,593
بلوچستانقلعہ عبداللہ184,832
بلوچستانقلعہ سیف اللہ88,424
بلوچستانکوہلو38,624
بلوچستانلسبیلہ182,697
بلوچستانلورالائی107,028
بلوچستانمستونگ80,118
بلوچستانموسیٰ خیل51,864
بلوچستاننصیر آباد162,349
بلوچستاننوشکی61,878
بلوچستانپنجگور74,751
بلوچستانپشین196,859
بلوچستانکوئٹہ559,939
بلوچستانشیرانی31,837
بلوچستانسبی75,832
بلوچستانواشک38,171
بلوچستانژوب96,278
بلوچستانزیارت51,742

انتخابات کے بعد

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کارکن حلقہ این اے۔49 میں جشن مناتے ہوئے۔ انتخابات کے بعد مسلم لیگ اور پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں کے بیچ میں اکثر جھڑپ اور تصادم دیکھنے کو ملا۔

الیکشن کمیشن نے انتخابات کے آخری مراحل میں ہی انتخابی عمل میں ایک گھنٹہ بڑھا دیا؛ اس پر کافی جماعتوں نے احتجاج بھی درج کروایا کیونکہ اس وقت تک انتخابات کے غیر حتمی نتائج میڈیا کے ذریعہ نشر ہونا شروع ہو گئے تھے۔[حوالہ درکار]

مجموعی طور پر انتخابی عمل پرامن رہا ماسوائ چند مقامات کے جہاں تشدد کی کارروائیاں ہوئیں یا پھر دھاندلی کی شکایات اور ثبوت و شواہد ملے۔ الیکشن کمیشن کو سب سے زیادہ شکایات حلقہ این اے۔250 سے ملیں اور ساتھ میں 40 سے زائد اور مقامات پر پولنگ ملتوی کر کہ 18 مئی 2013ء کو رکھ دی گئی۔[حوالہ درکار]

دھاندلی پر احتجاج

  • کراچی اور حیدرآباد: دھاندلی کی شکایات اور شواہد کے مدنظر پاکستان تحریک انصاف کے کارکن اور حامی سڑکوں پر نکل آئے۔ کراچی کے علاقے دو تلوار پر یہ لوگ 12 مئی 2013ء کو دن بھر اور رات گذرے احتجاج کرتے رہے۔ انھوں نے عہد کر لیا کہ احتجاج تب تک ختم نہ کریں گے جب تک الیکشن کمیشن ان کے مطالبے پر توجہ نہ دھرے۔
  • لاہور: پنجاب میں تحریک انصاف نے 25 نششتوں پر دوبادہ گنتی کا مطالبہ کیا۔[28]
  • بلوچستان: بلوچستان میں بہت کم فیصدی ووٹ پڑے اور اس طرح جمہوری عمل متاثر ہوا۔

مزید پڑھیے

بیرونی روابط

حوالہ جات