نابغہ ذبیانی

النابغہ الذبیانی بن معاویہ (مکمل نام: زیاد بن معاویة بن ضباب بن جابر بن یربوع بن مرّة بن عوف بن سعد، الذبیانی، الغطفانی، المضری) عہد جاہلیت کا ممتاز عرب شاعر اور حجاز سے تعلق رکھتا تھا۔[4]

نابغہ ذبیانی
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائشسنہ 535ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفاتسنہ 604ء (68–69 سال)[2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہشاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبانعربی [3]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی

اس کا پورا نام ابو امامہ زیادہ بن معاویہ ہے۔ نابغہ کا لقب اس لیے پڑا کیوں کہ اس نے مکمل مہارت اور تجربہ کے بعد اچانک شاعری شروع کی پھر اس کی شاعری کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔ جس کی بنا پر اسے پانی کے بہتے چشمہ سے تشبیہ دی گئی۔ یہ بنو ذبیان کے رئیس اور شریف لوگوں میں سے ایک تھا، لیکن تکسب بالشعر کی وجہ سے اس کی شان میں کمی آگئی اور اس کا وقار کم ہو گیا تو یہ نعمان بن منذر کے پاس گیا تو اس نے اسے اپنے خواص و مقربین میں شامل کر لیا اور اس پر انعامات کی بارش کردی۔ حتیٰ کہ یہ اس کے فیضان کی بدولت سونے چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے لگا۔ یہاں تک کہ اس کے کچھ حاسدوں نے نعمان کے پاس نابغہ کی چغلیاں کھائیں اور ثبوت کے طور پر اس کا وہ قصیدہ پیش کیا جس میں اس نے نعمان کی بیوی متجرہ کا وصف بیان کیا تھا، جس کا نعمان کے دل پر گہرا اثر ہوا اور نابغہ سے اس کے تعلقات خراب ہو گئے۔ چنانچہ نابغہ جان بچا کر نعمان کے دشمن عمرہ بن حارث غسانی کے پاس شام چلا گیا۔ جس سے نعمان کی ناراضی میں مزید اضافہ ہوا۔

نابغہ کافی عرصہ غسانیوں کے پاس رہا اور ان کی مدح میں قصائد کہتا رہا۔ غسانی اسے سونے چاندی سے بھرتے رہے۔ حتیٰ کہ اسے نعمان کے علیل ہونے کی خبر ملی تو وہ سفارش کے ذریعے نعمان کے پاس آیا اور اپنی بے گناہی کا اظہار کیا اور صفائی میں وہ معذرت خواہانہ قصائد پیش کیے جو بے نظیر و بے مثال ہیں۔ ان اشعار نے نعمان کی دلی ناراضی کو دور کیا اور نعمان کے دربار میں پہلے سا مقام حاصل کر لیا اور آسودہ حال زندگی بسر کرنے لگا۔ یہاں تک کہ بڑھاپے میں اس کے بدن میں رعشہ طاری ہو گیا اور وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گیا۔ جس کا اظہار اس نے اپنے اشعار میں کیا ہے، نابغہ 18 ہجری قبل فوت ہوا۔

شاعری

وہ عربی کے ان تین بلند پایہ شعرا میں سے تھا جن کی گرد کو کوئی بھی نہیں پہنچ سکا اور نہ ان کے آثار تک مل سکے۔ ان میں امرؤ القیس، نابغہ اور زہیر بن ابی سلمی ہیں۔ نابعہ اپنے دونوں ساتھیوں سے کنایہ کی ندرت، اشارہ کی دقت و نزاکت، مضمون کی نظافت اور تکلف کی قلت میں ممتاز ہے۔ مزید یہ کہ اس کی شاعری دل کے میلانات اور رجحانات سے ہم آہنگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دور جاہلیت اور آغاز اسلام میں لوگوں نے کسی اور شاعر کا کلام اتنا نہیں گایا جس قدر اس کا کلام گایا گیا۔

اس نے عمدگی سے رات کو خوفزدہ کی حالت مجرم کی معذرت خواہی اور انعام حاصل کرنے والے کی مدح کا انداز اختیار کیا ہے۔ یہ بے مثل اور بے نظیر ہے۔ ابتدا میں اس کے کلام میں أقواء (کہیں کہیں قافیہ کی آخری حرکات کی تبدیلی مثلاً کہیں پیش اور کبھی زیر یا زبر آنے کا عیب پایا جاتا تھا۔) جس کے متعلق وہ کہتا ہے کہ ’میری شاعری میں ایک نقص ہے جو میرے علم میں نہیں ہے ‘۔ حتیٰ کہ ایک مرتبہ اس نے کسی گویے سے اپنے چند اشعار سنے تو اسے اپنے عیب کا پتہ چل گیا، پھر اس نے دوبارہ اس نقص کا اعادہ نہیں کیا۔ عربوں نے شاعری میں اس کے بلند مقام کا اعتراف کیا ہے۔ اسی بنا پر وہ اسے عکاظ کے میلے میں پیش پیش رکھتے تھے اور اپنے ادبی مباحثوں میں اس کو فیصل مانتے تھے، وہی ان کے فیصلے کرتا تھا اور اس کا فیصلہ صحیح ہوتا تھا اور اسے تسلیم کیا جاتا تھا ۔[5]

حوالہ جات