مہوا موئترا
مہوا موئتر بھارت کی سیاست دان، مقررہ اور سابق بینکر ہیں۔[1][2] وہ مغربی بنگال کی سیاست پارٹی آل انڈیا ترنمول کانگریس کی رکن ہیں۔ ابھی وہ کرشنا نگر لوک سبھا حلقہ سے لوک سبھا کی رکن ہیں۔ اس سے قبل وہ مغربی بنگال اسمبلی میں کریم پور سے ایم ایل اے تھیں۔
مہوا موئترا | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
![]() | |||||||
مناصب | |||||||
رکن سترہویں لوک سبھا | |||||||
رکنیت مدت 23 مئی 2019 – 8 دسمبر 2023 | |||||||
حلقہ انتخاب | کرشنا نگر لوک سبھا حلقہ | ||||||
پارلیمانی مدت | 17ویں لوک سبھا | ||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | سنہ 1976ء (عمر 47–48 سال) کولکاتا | ||||||
شہریت | ![]() | ||||||
جماعت | آل انڈیا ترنامول کانگریس | ||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | ماؤنٹ ہولیوک کالج | ||||||
پیشہ | سیاست دان | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | بنگلہ ، انگریزی | ||||||
درستی - ترمیم ![]() |
ابتدائی زندگی
مہوا موئتر نے اپنی زندگی کے ابتدائی ایام آسام میں گزارے اور اس کے بعد کولکاتا چلی آئیں۔ پھر 15 برس کی عمر میں اہل خانہ کے ساتھ امریکا چلی گئیں جہاں انھوں نے ماؤنٹ ہولیوکے کالج سے معاشیات اور ریاضی کی تعلیم حاصل کی۔ تعلیم کے بعد انھوں نے لندن اور نیو یارک شہر میں جے پی مورگن چیز میں بحیثیت بینکر کام کیا اور نائب صدر بھی رہیں۔ 2008ء میں وہ واپس بھارت آئیں اور سیاست میں قدم رکھا۔[3][4][3]
سیاسی سفر
2009ء میں انھوں نے ترنمول کانگریس میں شمولیت اختیار کی۔ قبل ازیں انھوں نے راہل گاندھی کی "عام آدمی کا سپاہی" میں بھی کام کیا مگر زمینی سطح پر اس کے اثرات میں کمی کا حوالہ دیتے ہوئے پارٹی سے استعفی دے دیا اور آل انڈیا ترنمول کانگریس میں شامل ہو گئیں۔ وہ مغربی بنگال کے ضلع ندیا کے کریم پور حلقہ سے ایم ایل اے بنیں۔[5][6] فی الحال وہ کرشنا نگر سے رکن لوک سبھا ہیں۔ 2016ء میں انھوں اپنے اثاثہ کا تخمینہ 2.5 کڑوڑ بتایا تھا۔[7] جولائی 2019ء میں انھوں نے مودی حکومت کے ذریعے کی جانے والی جاسوسی کے خلاف عدالت عظمی میں مقدمہ دائر کیا ہے۔[8]
تنازع
جنوری 2017ء میں انھوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر بابل سوپریو کے خلاف ایک مقدمہ کیا، ان کا الزام تھا کہ موصوف نے ایک ٹی وی مباحثہ کے دوران میں ان کی بے عزتی کی ہے۔[9] جواباً سوپرایو نے بھی ان پر غلط الزامات لگانے کا مقدمہ کر دیا۔[10]
فعالیت
مہوا موئتر نجی معلومات کے تحفظ کے لیے خاصی فعال رہ چکی ہیں اور انھوں نے اس کے لیے بھارت کے سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا تھا۔ ان کی کوششوں کی وجہ سے حکومت کو اور آدھار کارڈ کے منتظم ادارے یو آئی ڈی اے آئی کو ای میل اور سماجی ذرائع ابلاغ کی باضابطہ نگرانی کے منصوبے سے دست کش ہونا پڑا تھا۔[11]