عبیدہ بن حارث

(عبیدہ ابن حارث سے رجوع مکرر)

عبید ہ بن حارث رضی اللہ عنہ(61ق.ھ / ) غزوہ بدر کے سب سے پہلے زخمی اور آخری شہید ہونے والے مہاجر صحابی ہیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارقم بن ابی ارقم کے گھر میں پناہ گزین ہونے سے پہلے مشرف باسلام ہوئے۔آپ رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ ہجرت کی ، غزوہ بدر شریک ہوئے جنگ لڑی جنگ کے اختتام کے بعد آنحضرت کے ساتھ بدر سے واپس آئے ؛ لیکن زخم ایسے کاری تھے کہ جانبر نہ ہو سکے، 63 برس کی عمر میں وفات پائی اورمقامِ صفراء ینبع البحر میں مدفون ہوئے۔

عبیدہ بن حارث
ابومعاویہ
عبیدہ بن حارث
(عربی میں: عبيدة بن الحارث ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائشی نامعبیدہ بن الحارث بن المطلب
پیدائشسنہ 563ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفاتسنہ 624ء (60–61 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفاتلڑائی میں مارا گیا   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قاتلشیبہ بن ربیعہ   ویکی ڈیٹا پر (P157) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کنیتابو الحارث
بو معاویہ
زوجہزینب بنت خزیمہ [1]  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
نسبالمطلبی القرشی
پیشہجنگجو   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبانعربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیںغزوہ بدر

نام و نسب

عبید ہ نام، ابوالحارث یا ابومعاویہ کنیت، والد کا نام حارث اور والدہ کا نام سنحیلہ تھا، سلسلہ نسب یہ ہے۔ عبیدہ بن حارث بن مطلب بن عبد مناف بن قصی القرشی۔ [2][3][4]

اسلام

عبیدہ ابوسلمہ بن اسد، عبد اللہ بن ارقم اور عثمان بن مظعون ایک ساتھ ایمان لائے تھے، آنحضرت اس وقت تک ارقم بن ابی ارقم کے مکان میں پناہ گزین نہیں ہوئے تھے۔ مکہ مکرمہ میں بلال ان کے اسلامی بھائی قرار پائے۔[5]

ہجرت

مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم ہواتو عبیدہ اوران کے دونوں بھائی طفیل ،حصین اور مسطح بن اثاثہ ایک ساتھ روانہ ہوئے، اتفاقاً راہ میں مسطح کو بچھو نے ڈنگ مارا، اس لیے وہ پیچھے چھوٹ گئے،لیکن دوسرے روز خبر ملی کہ وہ نقل و حرکت سے بالکل مجبور ہیں تو پھر واپس آئے اور ان کو اٹھا کر مدینہ لائے ،یہاں عبد الرحمن بن سلمہ عجلانی نے خوش آمدید کہا اور لطف و محبت کے ساتھ میزبانی کا حق اداکیا، آنحضرت نے تشریف لانے کے بعد عمیر بن حمام انصاری سے مواخات کرادی مستقل سکونت کے لیے ایک قطعہ زمین مرحمت فرمایا جس میں ان کا تمام خاندان آباد ہوا۔[6]

غزوات

ہجرت کے آٹھ مہینے بعد ماہ شوال میں ساٹھ مہاجرین کے ایک دستہ پر افسر مقرر ہو کر مشرکین قریش کی دیدبانی کے لیے وادی رابغ کی طرف بھیجے گئے ،تاریخ اسلام میں یہ دوسرا لوائے امارت تھا جو حضرت عبیدہ کو عطا ہوا۔وہ رابغ کے قریب پہنچے تو ابوسفیان کی زیر امارت دو سو مشرکین کی ایک جماعت سے مڈبھیڑ ہوئی ؛ لیکن جنگ وخونریزی کی نوبت نہ آئی، صرف معمولی طور سے چند تیروں کا تبادلہ ہوا۔ [7][8]

غزوۂ بدر

غزوۂ بدر میں شریک ہوئے ، صف آرائی کے بعد مشرکین کی طرف سے عتبہ، شیبہ اور ولید نے نکل کر
" ھل من مبارز"
کا نعرہ بلند کیا، لشکر اسلام سے چند انصاری نوجوان مقابلہ کے لیے بڑھے تو انھوں نے پکار کر کہا کہ "محمد ہم ناجنسوں سے نہیں لڑسکتے، ہمارے مقابل والوں کو بھیجو، آنحضرت نے علی، حمزہ اور عبیدہ کو آگے بڑھنے کا حکم دیا، جنبش لب کی دیر تھی کہ یہ تینوں نبرد آزما بہادر نیزے ہلاتے ہوئے اپنے اپنے حریف کے سامنے جا کھڑے ہوئے، عبیدہ اور ولید میں دیر تک کشمکش جاری رہی، یہاں تک کہ دونوں زخمی ہو گئے،چونکہ علی اور حمزہ اپنے دشمنوں سے فارغ ہو چکے تھے، اس لیے دونوں ایک ساتھ ولید پر ٹوٹ پڑے اور اس کو تہ تیغ کرکے عبید ہ کو میدانِ جنگ سے اُٹھا لائے ۔[9]
عبید ہ کا ایک پاؤں شہید ہو گیا تھا اور تمام بدن زخموں سے چور تھا، آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تسکین خاطر کے لیے ان کے زانو پر سر مبارک رکھ دیا، انھوں نے عرض کیا "یارسول اللہ "اگر ابو طالب مجھے دیکھتے تو انھیں یقین ہو جاتا کہ میں ان سے زیادہ ان کے اس قول کا مستحق ہوں۔

ونُسْلِمَه حتى نُصَرَّعَ حَوْلَهُونَذْهُلَ عن أبنائِنا والحَلائلِ

ہم محمد کو اس وقت تک دشمن کے حوالے نہ کریں گے جب تک ان کے ارد گرد لڑ کر مارے نہ جائیں اور اپنے بچوں اور بیویوں سے غافل نہ ہوجائیں ۔
[10]

وفات

اختتام جنگ کے بعد آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بدر سے واپس آئے ؛ لیکن زخم ایسے کاری تھے کہ جانبر نہ ہو سکے، 63 برس کی عمر میں وفات پائی اور مقامِ صفراء ینبع البحر میں مدفون ہوئے۔[11][12]ایک مرتبہ آپ اپنے صحابۂ کرام کے ساتھ اس مقام پر رکے تو صحابۂ کرام نے کہا کہ ہمیں مشک کی خو شبو آ رہی ہے۔ آپ نے فرمایا: ایسا ہو سکتا ہے، کیونکہ یہاں ابو معاویہ (عبید ہ بن حارث) کی قبر ہے۔[13]

فضل و کمال

ان کو دربارِ نبوت میں غیر معمولی رفعت حاصل تھی ،آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی نہایت قدر فرماتے تھے، ایک دفعہ آپ مقام صفراء میں خیمہ افگن ہوئے،صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا ‘یارسول اللہ یہاں مشک کی لپٹ آتی ہے، فرمایا، یہاں ابومعاویہ کی قبر موجود ہوتے ہوئے تمھیں اس پر تعجب کیوں ہے؟[14][15]

حلیہ

قد میانہ ،رنگ گندم گوں اور چہرہ خوبصورت ۔[16]

اولاد

حضرت عبیدہؓ نے متعدد بیویوں سے حسب ذیل لڑکے اور لڑکیوں کو یادگار چھوڑا ،[17] معاویہ عون، منقذ، حارث، محمد، ابراہیم، ریطہ، خدیجہ، سنجیلہ، صفیہ

حوالہ جات