آپ کے اجداد کا تعلق اصل میں ایران کے شہر نیشاپور سے تھا۔
نسب نامہ: صاحب عبقات الانوار سید مير حامد حسين ابن مفتى سيد محمد قلى ابن سيد محمد حسين المعروف بالسيد الله كرم ابن سيد حامد حسين ابن سيد زين العابدين ابن سيد محمد المشهور بالسيد البولاقی ابن سيد محمد المعروف بالسيد مدا ابن سيد حسين المشهور بالسيد ميتم ابن سيد حسين ابن سيد جعفر ابن السيد علي ابن سيد كبير الدين ابن سيد شمس الدين ابن سيد جمال الدين ابن سيد شهاب الدين أبی المظفر حسين الملقب بسيد السادات والمعروف بالسيد علاء الدين أعلى بزرك ابن سيد محمد المعروف بالسيد عز الدين ابن سيد شرف الدين أبی طالب المشهور بالسيد الأشرف ابن سيد محمد الملقب بالمهدی المعروف بالسيد محمد المحروق ابن سید حمزہ ابن سید علی ابن سید أبی محمد ابن سید جعفر ابن سید مهدی ابن سید أبی طالب ابن سید علی ابن سید حمزہ ابن سید أبی القاسم حمزہ ابن امام موسیٰ الكاظم علیہ السّلام
تعلیم
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ پندرہ سال کا سن تھا کہ آپ کے والد کا انتقال ہو گیا۔
علوم عقلیہ کو علامہ سید مرتضی خلاصۃ العلماء سے حاصل کیا اور علوم شرعیہ میں علامہ سید محمد سلطان العلماء اور ان کے بھائی علامہ سید حسین سید العلماء سے کسب فیض کیا۔
تالیفات
آپ نے عربی، فارسی اور اردو تین زبانوں میں کتابیں لکھیں۔
آپ کی صرف مشہور تالیفات کا نام یہاں درج کیا جا رہا ہے :
عبقات الانوارفی امامۃ الائمۃ الاطہار : علامہعبد العزیز محدث دہلوی نے اہل تشیع کے عقائد کی رد میں فارسی میں کتاب تحفۂ اثنا عشریہ لکھی، جس کے جواب میں (صرف باب امامت کے جواب کے طور پر) آپ نے فارسی میں ہی کتاب عبقات الانوار لکھی،ـ جو آپ کی سب سے مشہور تالیف شمار ہوتی ہے اور متعدد جلدوں پر مشتمل ہے۔ لفظ عبقات، عربی زبان میں عبقۃ کی جمع ہے جس کے معنی نکہت اور خوشبو کے ہیں اور انوار یہاں پر نور کی جمع ہے (نون کے زبر کے ساتھ)، جس کے معنی غنچہ اور کلی کے ہیں۔ عبقات الانوار یعنی غنچوں کی خوشبوئیں۔ لفظ انوار یہاں پر نون کے پیش کے ساتھ نور یعنی روشنی کی جمع نہیں ہے۔
إستقصاء الافحام واستيفاء الانتقام في رد منتهى الكلام : حیدر علی حنفی فیض آبادی کی کتاب منتہی الکلام کا جواب ہے۔
علامہ سید محسن امین عاملی : ” كان من أكابر المتكلمين الباحثين عن أسرار الديانۃ والذابين عن بيضۃ الشريعۃ وحوزۃ الدين الحنيف علامۃ نحريرا ماھرا بصناعۃ الكلام والجدل محيطا بالاخبار والآثار واسع الاطلاع كثير التتبع دائم المطالعۃ لم ير مثلہ في صناعۃ الكلام والإحاطۃ بالاخبار والآثار في عصرہ بل وقبل عصرہ بزمان طويل وبعد عصرہ حتی اليوم ولو قلنا إنہ لم ينبغ مثلہ فی ذلك بين الاماميۃ بعد عصر المفيد والمرتضی لم نكن مبالغين “ [5]
علامہ شیخ عبد الحسین امینی : ”السيد الطاھر العظيم كوالدہ المقدس سيف من سيوف اللہ المشھورۃ علی أعدائہ، ورايۃ ظفر الحق والدين، وآيۃ كبری من آيات اللہ سبحانہ، قد أتم بہ الحجۃ، واوضح المحجۃ، واما كتابہ العبقات فقد فاح أريجہ بين لابتي العالم، وطبق حديثہ المشرق والمغرب، وقد عرف من وقف عليہ أنہ ذلك الكتاب المعجز المبين الذی لا يأتيہ الباطل من بين يديہ ولا من خلفہ، وقد استفدنا كثيرا من علومہ المودعۃ في ھذا السفر القيم، فلہ ولوالدہ الطاھر منا الشكر المتواصل، ومن اللہ تعالی لھما أجزل الأجور“ [6]
علامہ شیخ آقا بزرگ تہرانی : ”کان کثیر التتبع واسع الاطلاع والاحاطۃ بالآثار و الاخبار والتراث الاسلامی، بلغ فی ذالک مبلغا لم یبلغہ احد من معاصریہ ولا المتاخرین عنہ بل ولا کثیر من اعلام القرون السابقۃ، افنی عمرہ الشریف فی البحث عن اسرار الدیانۃ والذب عن بیضۃ الاسلام و حوزۃ الدین الحنیف ولا اعہد فی القرون المتاخرۃ من جاھد جھادہ و بذل فی سبیل الحقائق الراھنۃ طارفہ و تلادہ، ولم تر عین الزمان فی جمیع الامصار و الاعصار مضاھیا لہ فی تتبعہ و کثرۃ اطلاعہ و دقتہ و ذکائہ و شدۃ حفظہ و ضبطہ “ [7]