رام ولاس پاسوان
رام ولاس پاسوان (ولادت: 5 جولائی 1946ء۔ وفات: 8 اکتوبر 2020ء) بھارتی سیاست دان تھے۔[6][7] لوک جن شکتی پارٹی کے صدر۔ پانچ جولائی 1946ء کو صوبہ بہار کے کھگڑیا ضلع میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنی سیاست سماجوادی رہنماء کرپوری ٹھاکُر کی رہنمائی میں شروع کی جنھوں نے ان کی شخصیت کو نکھارنے کا کام کیا۔ وہ پہلی بار 1969ء میں بہار اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے۔ وہ 1974ء میں جے پرکاش ناراین کی تحریک میں شامل ہوئے اور ایمرجنسی میں جیل بھی گئے۔ سن 1977ء میں لوک سبھا انتخابات میں کامیاب ہوئے اور مرکز میں پہلی بار وزیر بنے۔ اس کے بعد 1989ء میں وشوناتھ پرتاپ سنگھ کی کابینہ میں وزیر بنے۔ 1996ء میں وزیر ریل بنے۔ واجپئی کابینہ میں 01-1999ء کے دوران میں وزیر مواصلات رہے اور 02-2001ء کے درمیان میں وزیر کوئلہ اور معدنیات رہے۔ گجرات میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے مسئلے پر انھوں نے واجپئی کابینہ سے استعفی دے دیا۔ پھر 2004ء میں یو پی اے حکومت میں وزیر بن گئے۔ ان کی پہچان ایک دلت نیتا کے روپ میں ہوتی ہے۔ وہ ملک کے ان چند رہنماؤں میں ہیں جو مختلف پارٹیوں کی حکومت میں شامل رہے۔
رام ولاس پاسوان | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
(ہندی میں: रामविलास पासवान) | |||||||
مناصب | |||||||
رکن نویں لوک سبھا | |||||||
رکن مدت 2 دسمبر 1989 – 13 مارچ 1991 | |||||||
منتخب در | بھارت عام انتخابات، 1991ء | ||||||
پارلیمانی مدت | نویں لوک سبھا | ||||||
وزیر ریل | |||||||
برسر عہدہ 1 جون 1996 – 19 مارچ 1998 | |||||||
| |||||||
رکن راجیہ سبھا | |||||||
برسر عہدہ جولائی 2010 – 2014 | |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 5 جولائی 1946ء [3] کھگڑیا | ||||||
وفات | 8 اکتوبر 2020ء (74 سال)[4] نئی دہلی | ||||||
وجہ وفات | جراحی کی پیچیدگیاں | ||||||
طرز وفات | طبعی موت | ||||||
شہریت | بھارت [2] | ||||||
جماعت | لوک جن شکتی پارٹی [2] | ||||||
اولاد | چراغ پاسوان | ||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | جامعہ پٹنہ | ||||||
تعلیمی اسناد | ایم اے اور فاضل القانون | ||||||
پیشہ | سیاست دان [2] | ||||||
اعزازات | |||||||
درستی - ترمیم |
ابتدائی زندگی اور تعلیم
پاسوان 5 جولائی 1946ء کو بہار کے کھگڑیا ضلع کے شہربنانی میں ایک دلت گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام جیمون پاسوان اور والدہ کا نام سییا دیوی تھا۔[8][9]
وفات
رام ولاس پاسوان کا 8 اکتوبر 2020ء کو انتقال ہو گیا۔[10]