پاکستان کے سابق وزیر اعظملاڑکانہسندھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سر شاہ نواز بھٹو مشیر اعلیٰ حکومت بمبئی اور جوناگڑھ کی ریاست میں دیوان تھے۔ پاکستان میں آپ کو قائدِعوام یعنی عوام کا رہبر اور بابائے آئینِ پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔[11] آپ پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین وزیر اعظم تھے۔
پہلے ایشیائی تھے جنھیں انگلستان کی ایک یونیورسٹی ’’ساؤ تھمپئین‘‘ میں بین الاقوامی قانون کا استاد مقرر کیا گیا۔ کچھ عرصہ مسلم لا کالج کراچی میں دستوری قانون کے لیکچرر رہے۔ 1953ء میں سندھ ہائی کورٹ میں وکالت شروع کی۔
ستمبر1977ء میں مسٹر بھٹو نواب محمد احمد خاں کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیے گئے۔
شہادت
18 مارچ1978ء کو ہائی کورٹ نے انھیں سزائے موت کا حکم سنایا۔ 6 فروری1979ء کو سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کی توثیق کر دی۔ 4 اپریل کو انھیں راولپنڈی جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔سندھ میں 4 اپریل ، ان کی شہادت کے دن صوبہ بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے،
زیڈ اے بھٹو کی وراثت آئین پاکستان پاکستان کے دولخت ہوجانے کے بعد استحکام پاکستان میں بھٹو کی اہمیت ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے اور اس سے پہلوتہی ممکن نہیں۔ بھٹو پاکستان کے جوہری پروگرام کے معمار ہیں۔
ہنری کسنجر کی دھمکی
یکم جنوری 1974ء کو ذو الفقار علی بھٹو نے پاکستان کے بینکوں کو قومیا لیا۔[12] جسے عالمی بینکار کنٹرول کرتے تھے۔ عالمی بینکاروں کو للکارنے کی وجہ سے بھٹو کو 4 اپریل 1979ء کو پھانسی کے پھندے پر اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔"پھر ہم تمھیں ایک دہشت ناک مثال بنا دیں گے" ہنری کسنجر"Then we will make a horrible example of you!" (Henry Kissinger-1976)[13]
بھٹو سے پہلے کی سیاست
پاکستان میں جاگیرداروں کا مخصوص سیاسی کلچر رہا ہے۔ ستر کے عشرے اور اس سے قبل بھی اکثرسیاست دان جاگیردار تھے۔ خود کو بڑا سمجھنا، حکومت یا حکومتی اہلکار کے سامنے جھک جانا۔ اپنے مخالفین اور ماتحتوں سے ظالمانہ طریقے سے نمٹنا ان کا مخصوص طرزِ حیات تھا۔لہٰذا سیاست اور اقتدار میں بھی دھونس اور نوکرشاہی یا حکومت کی پشت پناہی ضروری سمجھی جاتی تھی۔ یہی لوگ اسمبلیوں یہاں تک کہ سیاسی جماعتوں پر حاوی ہوتے تھے۔ باقی لوگ زمیندار تو نہ تھے لیکن ان کے سیاسی کلچر پر ہی چلتے تھے۔سیاسی جاگیردار کلچرکیا تھا؟ بھٹو نے قومی اسمبلی میں ایک تقریر میں اس کو بیان کیا تھا۔
’جب جاگیردار ایک دوسرے سے لڑتے ہیں توعوام پیچھے رہ جاتے ہیں۔ کوئی ترقی نہیں ہوتی، کوئی کارخانہ نہیں لگتا، کوئی سڑک تعمیر نہیں ہوتی۔ بدترین اندھیرا اورغربت چھائی رہتی ہے۔ صرف گنتی کے لوگ ترقی کرتے ہیں یا خوش حال ہوتے ہیں۔ آپس کی لڑائیاں، عام آدمی کا استحصال، معاشی اور سماجی ترقی سے بیگانگی ہے‘
بھٹو کی میراث اور موجودہ پیپلزپارٹی
بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی آمرانہ و نیم آمرانہ تسلط کے خلاف مسلسل جدوجہد کرتی رہی۔ حکومت میں بھی آئی، لیکن کرپشن اور خراب حکمرانی کی لپیٹ میں آ گئی۔ سیاسی مصلحت کے تحت اسٹیبلشمنٹ کی لائن اختیار کرنے پر تنقید کا نشانہ بنی۔ بینظیر بھٹو اور بھٹو کے عدالتی قتل کے معمے عشروں بعد بھی حل نہیں ہو سکے۔تاریخ میں بھٹو مزاحمت اور مقبول لیڈرشپ کی علامت کے طور پر رہیں گے۔ پیپلزپارٹی اب بھٹو کی بجائے بینظیر بھٹو کے ورثے کو مانتی ہے۔ بھٹو دور کے جیالے مر کھپ گئے یا بوڑھے ہو گئے یا حالات نے انھیں لاتعلق بنا دیا۔ بھٹو کی پیپلزپارٹی کا عوامی رنگ تھا۔ ہفتے دس دن میں وہ عوام سے رجوع کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ یہ رنگ پھیکا پڑتا چلا گیا۔ بھٹوکی پارٹی میں جاگیردار کارکنوں اور پارٹی سے ڈرتے تھے۔ اب یہ طبقہ پارٹی کو ڈراتا ہے۔پیپلز پارٹی اب بھی ملکی سطح پر سیاسی قوت ہے لیکن پالیسیوں سے لگتا ہے وہ اپنی بقا کی ہی جنگ لڑ رہی ہے۔
آغا شورش کاشمیری جناب بھٹو شہید کے بدترین نقادوں میں سے تھے لیکن بھٹو نے جرأت کرتے ہوئے قادیانیوں کو جب غیر مسلم اقلیت قرار دیا تو شورش کاشمیری نے ذو الفقار علی بھٹو کو جنتی قرار دیتے ہوئے کہا تھا:
[1][مردہ ربط]بھٹو کی پھانسی کے 32 سال بعد پی پی پی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری کے ریفرنس پر سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت شروع کرتے ہوئے لارجر بینج تشکیل دینے کا حکم دیا ہے۔
منسوب ادارے
قائد عوام یونیورسٹی آف انجینئرنگ ،سائنس اینڈ ٹیکنالوجی