دادری میں ہجومی قتل، 2015ء

دادری میں بلوا اس واقعہ کا نام ہے جس میں 200 افراد کے ہجوم نے ایک مسلمان خاندان کو 28 ستمبر 2015ء کی رات کو دادری کے نزدیک بِسارا گاؤں، اترپردیش، بھارت میں حملے کا نشانہ بنایا۔ حملہ آوروں نے 52 سالہ محمد اخلاق سیفی کا قتل کیا اور ان کے 22 سالہ بیٹے دانش کو بری طرح زخمی کر دیا۔[1][2][3][4]

دادری is located in ٰبھارت
دادری
دادری
دادری نئی دہلی سے تقریباً 50 کلومیٹر دوری پر واقع ہے.

واقعات

افواہیں

28 ستمبر 2015ء کی شام کو کچھ لوگوں نے مقامی مندر کے لاؤڈ اسپیکر سے اس افواہ کو پھیلانا شروع کیا کہ محمد اخلاق کے خاندان نے ایک گائے ذبح کی ہے اور اس کے گوشت کو عید الاضحٰی کے موقع پر استعمال کیا ہے۔[5][6] حالانکہ بھارت میں عام طور سے مسلمان صرف بکرے کی قربانی کرتے ہیں۔[7] بعد میں پولیس نے بتایا کہ اس افواہ کی وجہ سے قتل کا یہ واقعہ پیش آیا۔[8]

حملہ

ایک ہجوم جس کے پاس لاٹھیاں، تلوار اور بندوقیں تھیں، محمد اخلاق کے گھر رات کو ساڑھے دس بجے پہنچا۔ خاندان عشائیہ ختم کر کے سونے جا رہا تھا۔ اخلاق اور ان کا بیٹا پہلے ہی سو چکے تھے۔ ہجوم نے ان پر گائے کے گوشت کھانے کا الزام عائد کیا۔ فریج میں کچھ گوشت ملا جسے ضبط کر لیا گیا۔ خاندان کا کہنا ہے کہ وہ بکرے کا گوشت تھا۔ ہجوم نے سلائی مشین پٹک کر اخلاق کے سر کو مارا اور خاندان کو باہر نکال دیا۔ اخلاق اور دانش کو مسلسل لاتوں اور اینٹوں سے مارا گیا پھر چاقو سے حملہ کیا۔ اخلاق کی بوڑھی ماں اور بیوی پر بھی حملہ کیا گیا اور اس کی بیٹی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی۔ خاندان کے ہندو پڑوسیوں نے اس ہجوم کو روکنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہے۔ پولیس کو بلایا گیا لیکن وہ ایک گھنٹے بعد پہنچی۔ اس وقت تک اخلاق دم توڑ چکے تھے اور دانش بری طرح زخمی تھے۔[3][5][6][7]

یہ خاندان اس گاؤں میں تقریبًا ستر سال سے آباد تھا۔ اس خاندان میں 52 سالہ اخلاق، 42 سالہ جان محمد سیفی، 82 سالہ اصغری بیگم، بیوی اِکرام، بیٹا 22 سالہ دانش اور بیٹی ساجدہ [3][9][10] اخلاق کا بڑا لڑکا 27 سالہ محمد سرتاج بھارتی فضائیہ میں ٹیکنیشن ہے اور حملے کے وقت چینائی میں تھا۔[11]

مابعد واقعہ گرفتاریاں

پولیس نے مندر کے پجاری اور اس کے معاون کو تفتیش کے لیے گرفتار کیا۔ ایک ایف آئی آر بھی درج کیا گیا جس میں خاندان والوں کی گواہی کی بنا پر دس لوگوں کی حملہ آوروں کے طور پر شناخت کی گئی تھی اور تعزیرات ہند کے مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ یکم اکتوبر کو آٹھ افراد گرفتار ہوئے تھے۔ تاہم مقامی افراد نے ان گرفتاریوں کے خلاف احتجاج کیا۔ پولیس کے ساتھ تصادم میں ایک نوجوان زخمی ہو گیا۔[5][7][8]

مندر کے بجاری نے کسی طرح کی وابستگی سے انکار کیا۔ اس نے کہا کہ اسے کچھ نوجوانوں نے اعلان کرنے پر مجبور کیا تھا۔ اس نے صرف یہ اعلان کیا تھا کہ ایک گائے ذبح کی گئی تھی اور لوگ مندر میں جمع ہو جائیں۔[8] 3 اکتوبر کو وِشال نامی آدمی جو مقامی بھارتیہ جنتا پارٹی قائد سنجے رانا کا بیٹا ہے، اس معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا۔[12] 4 اکتوبر تک دانش ہنگامی دیکھ ریکھ اکائی میں چار دن گزار چکا تھا اور دو دماغی آپریشنوں سے گذر چکا تھا۔ اسے کیلاش اسپتال، گریٹر نوئیڈا شریک کرایا گیا تھا۔[11] گرفتارشدہ اشخاص کی خاتون رشتے داروں نے صحافیوں پر حملہ کیا اور ذرائع ابلاغ کی گاڑیوں پر پتھراؤ کیا۔ ان کا دعوٰی تھا کہ ان اشخاص کو ناحق گرفتار کیا گیا اور ذرائع ابلاغ صرف متاثرین کی داستان بیان کر رہا ہے۔[13][14]

5 اکتوبر کو اتر پردیش پولیس نے خرد بلاگ نگاری کی ویب سائٹ ٹویٹر سے کچھ متن اور تصاویر کو حذف کرنے کے لیے کہا جو اس واقعے کے متعلق تھے اور ان کے متعلق اشتعال انگیز تھے۔[15][16]

رد عمل

اتر پردیش کے وزیر اعلٰی اکھلیش یادو نے متاثرہ خاندان کے لیے دس لاکھ روپیے کے معاوضہ کا اعلان 30 ستمبر 2015 کو کیا۔ انھوں نے ضلع مجسٹریٹ اور پولیس سوپراِنٹنڈنٹ کو اس خاندان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کہا۔[17] اکتوبر 2015 کو یہ معاضہ بڑھا کر بیس لاکھ روپیے کر دیا گیا۔[18] محمد اخلاق کا بڑا لڑکا محمد سرتاج جو بھارتی فضائیہ میں ٹیکنیشن ہے، کہا کہ وہ اپنے خاندان کو دادری سے باہر نکالنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔[19]

مہیش شرما، بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیر نے کہا کہ ہجوم کا یہ قتل منصوبہ بند نہیں تھا اور بدقسمت حادثہ ہے۔ تاہم انھوں نے خاندان سے انصاف کا وعدہ کیا۔[20] انھی کی جماعت کے رہنما تَرُن وجے نے کہا کہ یہ واقعہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ترقیاتی ایجنڈے کو اُلٹ دے گا۔ انھوں نے ہندوؤں سے تشدد پر آمادہ ہونے کی بجائے گایوں کی دیکھ ریکھ کرنی چاہیے۔ انھوں نے گائے کے گوشت کی برآمد اور کوڑدانوں سے گایوں کے پلاسٹک کھانے جیسی باتوں پر بھی توجہ دلائی۔[21] ایک اور بی جے پی لیڈر ساکشی مہاراج نے معاوضے کی رقم پر تنقید کی اور کہا کہ اگر کوئی ہندو کا قتل ہوتا تو اس کے خاندان کو کافی کم معاوضہ دیا جاتا۔[22]

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین قائد اسد الدین اویسی نے پولیس کے گوشت کو جانچنے کے فیصلے کی تنقید کی۔ انھوں ریاست کی بر سر اقتدار جماعت کی غیر فعالیت اور مقامی بی جے پی قائدین کی جانب سے فسادیوں کے دفاع کی مذمت کی۔[23]

بھارت کے فضائیہ کے سربراہ اروپ راہا نے اس واقعے کو افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ وہ خاندان کو بھارتی فضائیہ کے علاقے میں منتقل کرتے ہوئے تحفظ فراہم کرنا چاہتے ہیں۔[24] بہار کے سابق وزیر اعلٰی اور راشٹریہ جنتا دل قائد نے کہا کہ غریب عوام اور تارکین وطن گائے کا گوشت کھاتے ہیں۔ اور بکرے اور گائے کے گوشت میں کچھ فرق نہیں ہے۔ تاہم انھوں نے مزید یہ کہا کہ بکرے اور گائے کے گوشت صحت کے لیے مضر ہیں۔[25] سابق سپریم کورٹ کے جج مارکنڈے کاٹجو نے کہا کہ وہ گائے کا گوشت کھاتے ہیں اور گائے کو مقدس نہیں مانتے۔ وہ تیز رفتار انصاف اور خاطیوں کے لیے سخت سزا کے طلبگار تھے۔[26][27]

متاثرین کی کارروائی روکنے کی گزارش

دادری معاملے کے متاثرین نے اترپردیش کے وزیر اعلیٰ اکھِلیش یادو سے ملاقات کرکے کہا کہ وہ اِس معاملے میں اب تک (دسمبر 2015ء کے پہلے ہفتے تک) کی گئی کارروائی اور معاشی معاوضے سے مطمئن ہَیں اَور وہ اب اِس واقعے میں آگے کوئی تحقیق یا کارروائی نہِیں چاہتے۔[28]

مقتول اور خاندان کے خلاف ایف آئی آر

ایک عدالت نے 9جون، 2016ء میں اخلاق اور اس کے خاندان کے افراد کے خلاف گائے کا گوشت رکھنے کے الزام میں ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیا۔[29]

ملزمین کو ملازمت

ٹائمز آف انڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق دادری کے مقامی بی جے پی قیادت کی پر زور جستجو کی وجہ سے اس واقعے میں ملزم پائے گئے 15 افراد کو 2017ء میں نیشنل تھرمل پاور کارپوریشن یا این ٹی پی سی کے پاور پلانٹ میں ملازمت دی گئی جو دادری میں واقع ہے۔[30]

سب انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کا قتل

3 دسمبر 2018ء میں بلند شہر میں سب انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کا قتل گاؤ رکھشکوں کے ہاتھوں ہوا تھا۔ یہ وہی عہدے دار تھے جنھوں نے دادری قتل کے معاملے میں دس ملزمین کو اولًا گرفتار کیا تھا۔ انھوں نے ملزمین کے خلاف سبھی قانونی کارروائی کرنے کی کوشش کی تھی۔ انھوں نے عینی شاہدوں کی گواہی تعزیرات ہند کی دفعہ 161 کے تحت ریکارڈ کی۔ اخلاق کے خاندان کے بعد وہ اس معاملے کے پہلے گواہ بنے۔ تاہم ان کا تبادلہ جلد ہی وارنسی کر دیا گیا۔ سبودھ کمار سنگھ کے قتل تک دادری معاملے میں کوئی فرد جرم (چارج شیٹ) داخل نہیں کیا گیا تھا اور ملزمین برائت کی درخواست بھی داخل کر چکے تھے۔ یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سبودھ کو اپنی فرض شناسی کی قیمت اپنی جان دے کر چکانی پڑی۔[31]

مزید دیکھیے

حوالہ جات