خطیب بغدادی

عالم، محقق، محدث، مؤرخ اسلام۔

علامہ خطیب بغدادی (پیدائش 7 مئی 1002ء – وفات: 5 ستمبر 1071ء) مؤرخ تاریخ اسلام تھے۔ اُن کی وجہ شہرت تاریخ بغداد ہے۔

خطیب بغدادی
(عربی میں: الخطيب البغدادي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائشی نام(عربی میں: أحمد بن علي بن ثابت البغدادي ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش7 مئی 1002ء [1][2][3]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات5 ستمبر 1071ء (69 سال)[1][2][3]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہباسلام
فرقہاہل سنت
فقہی مسلکشافعی
عملی زندگی
استاذابو نعیم اصفہانی ،  ابن شہاب عکبری ،  ابو حسن بن رزقویہ ،  برقانی ،  ابو حامد اسفرائینی ،  صاعد بن محمد الاستوائی ،  ابو قاسم ازہری   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاصالماوردی ،  ممس لاکزی   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہمحدث ،  مورخ ،  معلم ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبانعربی [4]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عملعلم حدیث   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاںتاریخ بغداد   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نسب

خطیب بغدادی کا اصل نام احمد بن علی، کُنیت ابوبکر ہے۔ ابن خلکان (متوفی 681ھ/1282ء) نے خطیب کا نسب یوں لکھا ہے: ابوبکر احمد بن علی بن ثابت بن احمد بن مہدی بن ثابت البَغدادِی۔ الصفدی (متوفی 764ھ/ 1363ء) نے نسب یوں بیان کیا ہے: ابوبکر احمد بن علی بن ثابت بن احمد بن مہدی۔ یہی نسب علامہ ابن الجوزی (متوفی 597ھ/ 1201ء) نے اپنی تصنیف المنتظم فی تاریخ الملوک والامم میں بیان کیا ہے۔

القاب

خطیب عموماً الخَطِیْبُ الْبَغْدَادِیْ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ جبکہ محدثین کرام نے انھیں حافظ المشرق اور خطیب کے نام سے بھی پکارا ہے۔ امام ابن الاثیر الجزری (متوفی 630ھ/1233ء) نے خطیب بغدادی کو اِمامُ الدنیا فی زَمانہ کے لقب سے یاد کیا ہے۔ مورخ اِسلام الامام الذہبی متوفی (748ھ/1373ء) نے خطیب بغدادی کو اِن القابات سے یاد فرمایا ہے : الاِمام الاَوْحَد، العَلاَّمۃ المفتی، الحَافظ الناقد، محدث الوقت۔

ولادت و ابتدائی احوال

خطیب بغدادی کی وِلادت بروز جمعرات 21 جمادی الثانی 392ھ مطابق 7 مئی 1002ء کو ہوئی۔ آپ کا مقامِ وِلادت دَرْزِیْجَان ہے جو بغداد کے مغرب میں واقع دریائے دجلہکے کنارے ایک گاؤں ہے۔ یاقوت الحموی (متوفی 626ھ/ 1228ء) نے معجم البلدان میں لکھا ہے کہ دَرْزِیْجَان اصلاً دَرْزِیْندَان ہے جو عربی میں دَرْزِیْجَان مستعمل ہوا ہے۔ یہ قریہ بغداد کے مغربی جانب دریائے دجلہ کے کنارے آباد بغداد کے تحت بڑے دیہاتوں میں سے ایک تھا اور خطیب بغدادی کے والد علی بن ثابت یہاں خطیب کے عہدہ پر فائز تھے۔ خطیب بغدادی کی ولادت خلیفہ عباسی القادِر بِاللہ العباسی کے عہدِ خلافت کے 10 سال 10 ماہ گزرنے پر ہوئی۔ صاحبِ نجوم زاہرہ نے سنہ ولادت 391ھ لکھا ہے مگر مورخین کا اِتفاق اِسی پر ہے کہ ولادت 392ھ میں ہوئی۔ خطیب بغدادی نے بغداد میں ہی نشو و نما پائی اور عمر کا ایک طویل حصہ بغداد میں ہی بسر کیا۔

تحصیل علم و حدیث

خطیب بغدادی کے والد ابو الحسن الخطیب علی بن ثابت بن مہدی قریہ دَرْزِیْجَان میں خطیب تھے۔ سمعانی کہتے ہیں کہ خطیب کے والد ابو الحسن علی بن ثابت قریہ دَرْزِیْجَان میں 20 سال سے زائد کی مدت تک خطیب کے عہدے پر فائز رہے۔ خطیب بغدادی نے قرات کا درس ھِلال بن عبد اللہ بن محمد الطیبِیّ، ابو عبد اللہ الطِیْبِی اور مودِّبی سے حاصل کیا۔ مودِّبِی کی وفات 422ھ/ 1031ء میں بغداد میں ہوئی۔ خطیب کے حدیث کے سماع کی اِبتداء محرم الحرام 403ھ/ جولائی اگست 1012ء سے ہوئی اُس وقت خطیب بغدادی کی عمر 10 سال 7 ماہ تھی۔ اولاً کتابتِ حدیث و اِملاءِ حدیث کا درس محمد بن احمد بن محمد بن احمد بن رَزق المعروف ابن رزقویہ سے حاصل کیا۔ ابن رزقویہ کی وفات 412ھ (1021ء- 1022ء) میں ہوئی۔ خطیب نے ابن رزقویہ سے حدیث کا سماع 406ھ (1015ء-1016ء) میں شروع کیا جو ابن رزقویہ کی وفات یعنی 412ھ تک جاری رہا۔ غالباً قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ ابتدائی 6 سال خطیب کی تعلیم میں ابتدائی زِینے ثابت ہوئے اور یہ بات بھی حیران کن ہے کہ یہ تمام سال ابن رزقویہ کی حیات کے اواخر پیرانہ سالی کے سال ہیں یعنی 406ھ تا 412 ہجری ( 81 تا 87 سال کی عمر)۔

حنابلہ اور خطیب بغدادی

خطیب اولاً امام احمد بن حنبل متوفی (241ھ/ 855ء) کے مذہب پر گفتگو کیا کرتے تھے، بعد ازاں امام شافعی متوفی (204ھ/ 820ء) کے مذہب کی طرف منتقل ہو گئے، اِسی لیے خطیب کا شمار کبار شافعیہ میں کیا جاتا ہے۔ علوم حدیث میں متبحرانہ دسترس رکھنے کی وجہ سے خطیب بغدادی کو بغداد میں کافی شہرت حاصل ہوئی۔ خطیب کے تذکرہ نویسوں میں سے ایک کا ذِکر ہے کہ واعظین اور مبلغین حدیث یہ ضروری سمجھتے تھے کہ اپنی جمع کی ہوئی احادیث کو اپنے واعظوں اور تقریروں میں روایت کرنے سے قبل اُن کی صحت کے متعلق اُن کی متخصصانہ رائے معلوم کر لیں، لیکن اِس کے برعکس یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حنابلہ کی مخالفانہ روِش سے جن کا اُس زمانے میں بغداد میں بہت غلبہ و ہجوم تھا، خطیب کو تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔

شروع میں حنبلی المذہب رہنے کے بعد اُن کا شافعی مذہب کو ترجیح دینا، مزید اُن کے فقیہانہ نظریات جن پر اَشعریت کا اثر غالب تھا، اِن سب عوامل نے امام احمد بن حنبل کے شاگردوں کو جو اُمورِ فقہ میں قیاس کے سخت مخالف تھے، خطیب سے متنفر کر دیا۔ حنابلہ کی مخالفت کی تلخی خطیب کے دِل میں جاگزیں ہو گئی تھی جس کا اِظہار اِن باتوں سے ہوتا ہے کہ خطیب اپنی تحاریر، تقاریر میں حنابلہ پر اشارہ تنقید کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دِیا کرتے تھے، اِسی وجہ سے بعد کی نسلوں نے خطیب بغدادی پر فقہی تعصب اور مذہبی جنبہ دارِی کا اِلزام عائد کیا ہے جسے حاجی خلیفہ نے بیان کیا ہے۔ خطیب بغدادی عقائد میں مذہبِ ابوالحسن الاشعری (متوفی 324ھ/ 936ء) کے پیرو تھے جو بقول امام تاج الدین السُّبکی (متوفی 756ھ/ 1355ء)، محدثین کا مذہبِ قدیماً و حدیثًا رہا ہے۔

مناقب

خطیب اچھے قاری، فصیح الالفاظ اور ماہر ادب تھے، بعض اوقات شعر بھی کہا کرتے تھے۔ چلتے چلتے کتاب کا مطالعہ کرتے جاتے۔ دولت و ثروت مند تھے۔ اہل علم اور علم کی خدمت میں بڑی بڑی رقوم خرچ کیں۔ سفر حج میں قریبِ غروب آفتاب ایک قرآن ترتیل کے ساتھ ختم کر لیا کرتے تھے، اِس کے بعد لوگ جمع ہوکر روایتِ حدیث کی اِلتجاء کیا کرتے۔ خطیب سوارِی میں بیٹھ کر روایتِ حدیث کرتے کیونکہ عرب میں سفر شب کو ہی ہوتا ہے۔ ایک بار کسی نے آپ کو دیکھ کر کہا " تم حافظ ابوبکر خطیب ہو؟ " تو کسر نفی میں فرمایا " میں ابوبکر خطیب ہوں"۔ حاضری حرم کے وقت زمزم نوش فرمانے کے بعد تین دعائیں کیں: بغداد میں اپنی تاریخ روایت کریں، جامع المنصور میں روایتِ حدیث کریں اور حضرت بشرحافی کے پہلو میں دفن ہوں۔ اور یہ تینوں دعائیں قبول ہوئیں۔ محدثین کا اِس پر اِتفاق ہے کہ امام دارِقُطنی کے بعد عُلوم حدیث کا ماہر اِن سے بڑھ کر نہیں ہوا، حفاظ کا اِن پر خاتمہ ہو گیا۔علامہ ابن کثیر الدمشقی (متوفی 773ھ / 1373ء) نے خطیب کے لیے اپنی تاریخ میں یہ شعر نقل کیا ہے " تو ہمیشہ ہی تاریخ میں مجاہدانہ طور پر مشقت اُٹھاتا رہا ہے، حتٰی کہ میں نے تجھے تاریخ میں لکھا ہوا دیکھا۔"

وفات

خطیب بغدادی کا انتقال بروز پیر 7 ذوالحجہ 463ھ مطابق 5 ستمبر 1071ء کو ہوا۔ اُس وقت آپ کی عمر 71 سال قمری تھی۔ تدفین بغداد میں کی گئی۔

تصانیف

خطیب بغدادی کی کل تصانیف کی تعداد 56 ہے۔ ابن خلکان نے یہ تعداد 60 کہی ہے مگر مورخ اسلام الامام الذہبی نے خود تذکرۃ الحفاظ میں خطیب کی تصانیف کی تعداد 56 لکھی ہے اور ابوسعد سمعانی نے بھی اِس سے اِتفاق کیا ہے۔ صور شہر میں اقامت (459ھ تا 462ھ/1067ء-1070ء) کے دوران خطیب نے ابوعبداللہ الصوری کی تصانیف کو نقل کیا، خطیب اِن تصانیف کو ابو عبد اللہ الصوری کی زوجہ سے عاریتًا لے لیا کرتے تھے۔ علامہ ابو الفرج ابن جوزی(متوفی 597ھ/1201ء) کہتے ہیں کہ اِن تصانیف کا ایک بڑا حصہ ابو عبد اللہ الصوری کا ہے یا اِن کی ابتدا اُن کی ہے اور خطیب نے اِن تصانیف کو مکمل کیا ہے یا انھیں اپنی ہی تصانیف بنا لیا ہے۔ علامہ ابو الفرج ابن جوزی کا خیال درست ہو سکتا ہے، مگر تاریخ بغداد کے متعلق یہ قول درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ تاریخ بغداد کا اَسلوب تمام تواریخی کتب سے جداگانہ حیثیت رکھتا ہے اور وہ کسی اور کی طرزِ تحریر معلوم نہیں ہوتا، یہ خود خطیب کا شاہکار ہے۔ علامہ ابن کثیرنے تاریخ ابن کثیر میں اور علامہ ابو الفرج ابن جوزی نے المنتظم فی تاریخ الملوک والامم میں اِن تصانیف کا ذِکر کیا ہے۔

فہرست تصانیف

  • تاریخ بغداد (کتاب)-
  • کتاب الکفایۃ فی معرفۃ اُصول علم الروایۃ
  • کتاب الجامع لاخلاق الراوی و آداب السامع : یہ کتاب دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان سے 1417ھ/ 1996ء میں شائع ہوئی۔
  • شرف الصحاب الحدیث
  • کتاب المتفق و المفترق
  • السابق واللاحق
  • تلخیص المتشابہ فی الرسم تلخیص کتاب السابق واللاحق : یہ کتاب دارالصمیعی، الریاض سعودی عرب سے پہلی بار 1417ھ/ 1997ء میں شائع ہوئی۔
  • الفصل للوصل المدرج فی النقل : یہ کتاب دارالہجرۃ الریاض سعودی عرب سے 1418ھ/ 1997ء میں پہلی بار شائع ہوئی۔
  • روایۃ الآباءِ عن الانباءِ
  • الفقیھہ والمتفقۃ
  • المکمل فی بیان المُھمل
  • کتاب غنیۃ المقتبس فی تمییز الملتبس : یہ کتاب غنیۃ الملتمس اِیضاح الملتبس کے نام سے مکتبۃ الرشد الریاض سے 1422ھ/ 2001ء میں شائع ہوئی۔
  • کتاب الاسماءِ المبھمۃ والانباءِ المحکمۃ
  • کتاب الموضع اوھام الجمع والتفریق : یہ کتاب دارالفکر الاسلامی سے 1405ھ/ 1985ء میں شائع ہوئی۔
  • کتاب الموتنف بکملۃ المُختلف والموتلف
  • کتاب لھج الصواب فی ان التسمیۃ من فاتحۃ الکتاب
  • کتاب الجھر بِا البسملۃ
  • کتاب رافع الارتیاب فی المقلوب من الاسماءِ والاَلقاب
  • کتاب القنوت
  • کتاب التبیین لاسماءِ المُدلسین
  • کتاب تمییز المزید فی متصل الاَسانید
  • کتاب مَنْ وافق کنیۃ اسم ابیہ
  • کتاب مَنْ حدَّث فنسی
  • کتاب روایۃ الآباءِ عنِ الانباءِ
  • کتاب الرحلۃ
  • کتاب الرواۃ عن مالک
  • کتاب الاحتجاج عن الشَّافعی فیما اسند الیہ و الرَّد علی الطاعنین بجحایم علیہ : یہ کتاب بھی شائع ہو چکی ہے۔
  • کتاب التفصیل لمبھم المراسیل
  • اقتضاءِ العِلم العَمَلِ : یہ کتاب علامہ ناصر الدین الالبانی کی تحقیق کے ساتھ پہلی بار 1422ھ/ 2002ء میں مکتبۃ المعارف للنشر والتوزِیع، الریاض سعودی عرب سے شائع ہوئی۔
  • کتاب تقیید العلم
  • کتاب القول فی علم النجوم
  • کتاب روایات الصحابۃ عن التابعین
  • کتاب صلاۃ التسبیح
  • کتاب مسند نُعَیم بن حَمَّاد
  • کتاب النَہی عن صَوم یوم الشَّکْ
  • کتاب الاِجازۃ للمَعدُوم والمَجھول۔
  • کتاب روایات السنۃ من التابعین۔
  • کتاب البُخَلَاءِ : یہ کتاب دارِ ابن حزم بیروت، لبنان سے پہلی بار 1421ھ/ 2000ء میں شائع ہوئی۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  • وفیات الاعیان: جلد 1، صفحہ 92، الرقم الترجمہ 34۔
  • الوافی بالوفیات : جلد7، صفحہ 190، الرقم الترجمہ 3137۔
  • المنتظم فی تاریخ الملوک والامم : جلد 16، صفحہ 129، الرقم الترجمہ 3407۔
  • سیراعلام النبلاء : جلد18، صفحہ270، الرقم الترجمہ 137۔