حافظ الاسد
حافظ الاسد شام کے صدر تھے۔
حافظ الاسد | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
(عربی میں: حافظ الأسد) | |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 6 اکتوبر 1930ء [1][2][3][4][5][6][7] قرادحہ | ||||||
وفات | 10 جون 2000ء (70 سال)[1][2][3][4][5][8][7] دمشق | ||||||
وجہ وفات | دورۂ قلب | ||||||
مدفن | قرادحہ | ||||||
طرز وفات | طبعی موت | ||||||
شہریت | شام | ||||||
زوجہ | انیسہ مخلوف (1957–10 جون 2000) | ||||||
اولاد | باسل الاسد ، بشار الاسد ، بشری الاسد ، ماہر الاسد | ||||||
مناصب | |||||||
وزیر اعظم سوریہ | |||||||
برسر عہدہ 21 نومبر 1970 – 3 اپریل 1971 | |||||||
| |||||||
صدر سوریہ | |||||||
برسر عہدہ 22 فروری 1971 – 11 مارچ 1971 | |||||||
| |||||||
صدر سوریہ | |||||||
برسر عہدہ 12 مارچ 1971 – 10 جون 2000 | |||||||
| |||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | سیاست دان ، فوجی افسر | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | عربی [9] | ||||||
عسکری خدمات | |||||||
عہدہ | جرنیل | ||||||
لڑائیاں اور جنگیں | 6 روزہ جنگ ، جنگ استنزاف ، بلیک سیپٹمبر ، جنگ یوم کپور ، لبنانی خانہ جنگی | ||||||
اعزازات | |||||||
کالر آف دی آرڈر آر دی وائیٹ لائن | |||||||
دستخط | |||||||
IMDB پر صفحات | |||||||
درستی - ترمیم |
10 جون سنہ 2000 کو شام کے صدر حافظ الاسد طویل بیماری کے بعد 70 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ حافظ الاسد سنہ 1964 میں شام کی فضائیہ کے کمانڈر کے عہدے پر فائز ہوئے اور اس کے تین سال بعد وزير دفاع بنے۔ سنہ 1970 میں انھوں نے ایک کودتا کے ذریعے شام کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا اور پھر بعث پارٹی کے لیڈر منتخب ہوئے۔ ایک سال کے بعد وہ ریفرینڈم کے ذریعے شام کے صدر بنے اور پھر کئی ریفرینڈموں کے ذریعے آخری دم تک عہدۂ صدارت پر باقی رہے۔ سنہ 1967 میں عربوں اور صیہونی حکومت کے درمیان ہونے والی جنگ کے دوران حافظ الاسد شام کے وزير دفاع تھے۔ اس جنگ میں صیہونی حکومت نے جولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کرلیاتھا، لیکن سنہ 1973 ع میں حافظ الاسد اپنی فوج کو مضبوط کرکے جولان پہاڑیوں کے ایک حصے کو واپس لینے میں کامیاب ہو گئے۔ صیہونی حکومت کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا اور اسلامی جمہوریۂ ایران جیسے، صیہونیت مخالف ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنا، حافظ الاسد کے دور کی، شام کی خارجہ پالیسی کی خصوصیات میں شامل ہیں۔ حافظ الاسد کے بعد ان کے بیٹے بشار اسد کو صدر منتخب کیا گيا۔ انھوں نے بھی اپنے والد کی پالیسیوں کو آگے بڑھایا خطے میں جاری صیہونیت مخالف محاذ میں شام کے بنیادی کردار کو محفوظ رکھا جو امریکا، اسرائیل اور خطے میں ان کے حامی ممالک کو ایک آنکھ نہيں بھاتا چنانچہ اس وقت صدر بشار اسد کو ایک ایسی خانہ جنگی کا سامنا ہے جس میں ترکی سعودی عرب اور قطر سمیت کئی ديگر ممالک کا ہاتھ نمایا ہے۔ تاہم صدر بشار اسد کی حکومت گراکر ان کی جگہ کسی مغرب نواز ایجنٹ کو اقتدار میں لانے کی ان کی کوئی بھی کوشش تابحال کامیاب نہيں ہو سکی ہے۔