جی ایم سید | |
---|---|
![]() | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 17 جنوری 1904ء ![]() سن، سندھ ![]() |
وفات | 25 اپریل 1995ء (91 سال) ![]() کراچی ![]() |
مدفن | سن، سندھ ![]() |
شہریت | ![]() ![]() |
جماعت | پاکستان مسلم لیگ نیشنل عوامی پارٹی ![]() |
عملی زندگی | |
پیشہ | فلسفی ، سیاست دان ، شاعر ![]() |
پیشہ ورانہ زبان | سندھی ![]() |
درستی - ترمیم ![]() |
جی ایم سید (پیدائش : 17 جنوری 1904ء - وفات: 25 اپریل 1995ء) سندھ سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے ممتاز سیاست دان اور دانشور تھے جنھوں نے سندھ کو بمبئی سے علیحدگی اور سندھ کی پاکستان میں شمولیت کے حوالے سے ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔
جی ایم سید، پاکستان کے ٹہراؤ کے لیے تین مارچ 1943 کو سندھ اسمبلی میں سندھ کے سینیئر سیاست دان جی ایم سید نے پاکستان کے قیام کے لیے قرارداد پیش کی تھی۔ سندھ یہ قرارداد پیش کرنے والا پہلا صوبہ تھا۔مگر انھی جی ایم سید نے 1973 میں سندھو دیش یعنی سندھ کے ایک آزاد حیثیت میں قیام کا تصور پیش کیا تھا۔جی ایم سید 17 جنوری 1904ء کو سندھ میں ضلع دادو کے قصبہ "سن" میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام غلام مرتضی سید تھا۔ جی ایم سید سندہ کے قوم پرست رہنما تو تھے مگر ان کی دلچسپیان صوفی ازم، شاعری، تاریخ، اسلامی فلسفہ، نسلیات اور ثقافت میں بھی تھی۔ 1930ء میں سندھ ہاری کمیٹی کی بنیاد دکھی۔ جس کی عنان بعد میں حیدر بخش جتوئی ہاتھوں میں آئی۔ ان کا تعلق سندھ کے صوفی بزرگ سید حیدر شاہ کاظمی کے خانوادوں میں تھا اور وہ ان کی درگاہ کے سجادہ نشین بھی رہے۔ سرگرم سندھی قومپرست اور ادیب عبدالواحد آریسر ان کے پیروکاروں میں سے تھے۔ سید صاحب "سندھ عوامی محاذ" کے بانی بھی تھے۔ سائیں جی ایم سید قیام پاکستان کے ہیروز میں سے ایک ہیں ان کا تحریک آزادی میں ایک اہم قردار ہے انہی کی بدولت آج صوبہ سندھ پاکستان کا ایک حصہ ہے۔ وہ سائیں جی ایم سید ہی تھے جنھوں نے سندھ اسمبلی میں قیام پاکستان کے حق میں پیش کی اور اسے بھاری اکثریت سے پاس کروایا جس کی بدولت سندھ پاکستان کا ایک حصہ بنی۔ 1955ء میں انھوں نے نیشنل عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی پھر ممتاز سندھی دانشور، ادیب، معلم محمد ابراہیم جویو ( پیدائش 2 اگست 1915ء) کی مشاورت میں سندھی قوم پرستی کا نعرہ بلند کیا جو مارکسزم، کبیر،گرونانک اور گاندھیائی فلسفہ حیات کا ملغوبہ تھا۔ 1966ء میں بزم صوفی سندھ، 1969ء میں سندھ یونائیڈڈ فرنٹ اور 1972ء میں جے سندھ محاذ کی تشکیل اور انصرام میں اہم کردار ادا کیا۔ سائیں جی ایم سید نے ساٹھ (60) کتابیں لکھیں۔ "مذہب اور حقیقت" ان کی معرکتہ آرا کتاب ہے۔ ان کی زیادہ تر تصانیف سیاست، مذہب، صوفی ازم،سندھی قومیت اور ثقافت اور سندھی قوم پرستی کے موضوعات پر لکھی گی ہیں۔ 1971ء میں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد سید صاحب نے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے " سندھو دیش" کا مطالبہ کیا تھا۔جی ایم سید کی سیاست ان نکات کے گرد گھومتی تھی:
وہ " اسلامی جمہوریہ پاکستان" کے سخت مخالف تھے۔ تیس (30) سال پابند سلاسل رہے۔ 19 جنوری 1992ء کو ان کو گرفتار کیا گیا اور ان کی موت تک ان کا گھر "زیلی جیل" قرار دے کر نظر بند کر دیا گیا تھا۔
سندھی کتب کی فہرست یہ ہے
اردوءَ میں ترجمہ ہوئی ڪتابیں
انگريزي میں ترجمو ہوئی ڪتابیں
(1) Sindh & Seperation of Judicial from Executive (A Complete Scheme: 1946),
(2)Struggle for New Sindh,
(3) Six Point Formula,
(4)
A Case for Sindhu Desh,(5)
Sindhu Desh: A Nation in
Chains,(6)
Religion & Reality or My Vision to Religion,
(7)
Sindhu Desh: A Study into Separate Identity Through the Ages,
(8)Sindhu Desh: The Case Yet to Settle (Translated by: M. Ibrahim Joyo). اهڙيءَ طرح جي. ايم. سيد جي تاريخي لائبرريءَ ۾ سندس انگريزي ڪتاب Letters of M. A. Jinnah & G. M. Sayed، آتم ڪٿا جو رهيل حصو، ڊائريون، مضمون، خط ۽ ٻيو ڪيترو اڻ ڇپيل مواد موجود آهي
جی ایم سید 25 اپریل 1995ء کو 91 سال کی عمر میں جناح ہسپتال کراچی میں وفات پا گئے۔
تاریخی شخصیات |
|
---|---|
بیسویں و اکیسویں صدی کی شخصیات | |
ثقافت | |
شاعر | |
عصر حاضر تنازعات |
|
جنگیں اور تنازعات | |
سیاسی جماعتیں |
|
عسکریت پسند تنظیمیں |
|
غیر منافع بخش تنظیمیں |
|