بھارت کے عام انتخابات، 2019ء

بھارت کے عام انتخابات، 2019ء سترہویں لوک سبھا کو تشکیل دینے کے لیے 11 اپریل تا 19 مئی 2019ء سات مراحل میں مکمل ہوئے۔ ووٹوں کی گنتی 23 مئی کو ہوئی اور اسی دن نتائج کا اعلان بھی ہو گیا۔[1][2][3][4]ووٹروں کی کل تعداد تقریباً 900 ملین تھی جنھوں نے 7 مراحل میں حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ کل 67 فیصد رائے دہندگان ووٹ دینے میں کامیاب رہے اور یہ بھارتی انتخابات کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔[5] خواتین کی شرکت کے لحاظ سے بھی یہ انتخابات تاریخ ساز رہے ہیں۔[6][note 1]بھارتی الیکشن کمیشن کی اطلاع کے مطابق پہلے 24 گھنٹوں کی گنتی کے بعد لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے 542 کے نتائج سامنے آئے جن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو 294 نشستوں پر کامیابی ملی اور مزید 9 نشستوں پر وہ آگے چل رہی ہے۔ اس طرح بی جے پی کی نشستوں کی کل تعداد 303 بنتی ہے۔[8] انڈین نیشنل کانگریس محض 52 نشستوں پر سمٹ گئی۔ ان دونوں جماعتوں کی اتحادی پارٹیاں اور دیگر غیر متحد پارٹیاں باقی 187 نشستوں پر یا تو جنیت چکی تھیں یا آگے چل رہی تھیں۔ لوک سبھا میں رسمی طور پر حزب اختلاف کا درجہ حاصل کرنے کے لیے کسی بھی جماعت کو کم از کم دس فیصد نشست یا 55 نشستوں پر جیتنا ضروری ہے۔ سب سے بڑی حزب مخالف جماعت انڈین نیشنل کانگریس ایک بار پھر حزب مخالف کا درجہ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ فی الحال بھارت میں کوئی رسمی حزب مخالف جماعت نہیں ہے۔ نریندر مودی نے اپنی فتح کا اعلان کر دیا ہے۔[9] وہیں راہل گاندھی نے بھی شکست تسلیم کرلی ہے۔[10]

بھارت کے عام انتخابات، 2019ء

→ 201411 اپریل – 19 مئی 2019ء2024 ←

لوک سبھا میں کُل 543 نشستیں
اکثریت کے لیے 272 درکار نشستیں
استصواب رائے
ٹرن آؤٹ67.11% (Increase0.7%)
 پہلی بڑی جماعتدوسری بڑی جماعت
 
قائدنریندر مودیراہل گاندھی
جماعتبھارتیہ جنتا پارٹیانڈین نیشنل کانگریس
اتحادقومی جمہوری اتحادمتحدہ ترقی پسند اتحاد
قائد از13 ستمبر 2013ء11 دسمبر 2017
قائد کی نشستوارانسیامیٹھی
آخری انتخابات282 نشستیں، 31.3%44 نشستیں، 19.5%


نقشہ میں لوک سبھا کے تمام حلقہ جات

وزیر اعظم قبل انتخابات

نریندر مودی
بھارتیہ جنتا پارٹی

وزیر اعظم بعد انتخاب

نریندر مودی
بھارتیہ جنتا پارٹی

آندھرا پردیش، اروناچل پردیش، اوڈیشا اور سکم اسمبلی انتخابات بھی عام انتخابات کے ساتھ منعقد ہوئے۔[11][12]

انتخابی نظام

باضابطہ لوگو – دیش کا مہاتیوہار

لوک سبھا کے 543 ارکان (پارلیمان) الگ الگ نششتوں سے منتخب ہو کر آئیں گے۔ صدر بھارت اینگلو انڈین کے ارکان نامزد کرے گا اور اس طرح لوک سبھا میں کل 545 ارکان ہوں گے۔[13]انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے ؛

  • بھارت کا شہری ہونا،
  • 18 سال کی عمر کو پہنچنا اور
  • پولنگ حلقہ کا رہائشی ہونا

ضروری ہے۔ ووٹ ڈالنے کے لیے اہل شہرہ کو بھارتی الیکشن کمیشن ایک شناختی کارڈ جاری کرتا ہے۔ جس کے پاس کارڈ نہ ہو اسے ووٹ ڈالنے نہیں دیا جاتا ہے۔[14]

پس منظر

گذشتہ انتخابات 16ویں لوک سبھا کے لیے اپریل-مئی 2014ء کو منعقد ہوئے تھے۔ 2014ء میں موجودہ وزیر اعظم بھارت نریندر مودی کی قیادت میں قومی جمہوری اتحاد کے زیر قیادت بھارتیہ جنتا پارٹی نے انتخابات جیتے تھے اور انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت والی متحدہ ترقی پسند اتحاد کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ گذشتہ انتخابات اس لحاظ سے بھی اہم تھا کہ کسی ایک پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کو 282 نششتیں ملی تھیں جو اپنے آپ میں ایک تاریخ ہے جبکہ انڈین نیشنل کانگریس محض 44 نشستوں پر سمٹ گئی تھی۔ اس لحاظ سے یہ انتخاب میل کا پتھر ثابت ہوا تھا۔ اس جیت کا ہیرو موجودہ وزیر اعظم کو بتایا جاتا ہے جنھوں نے اپنے وعدوں سے عوام کا دل جیت لیا تھا۔ اس انتخابات میں بی جے پی کی انتخابی مہم بھی قابل دید تھی جس میں انھوں نے بد عنوانی، بے روزگاری اور مہنگائی کو مدعا بنایا تھا۔[15] دیکھیں ٰبھارت کے عام انتخابات 2014ء، میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی انتخابی مہم۔ کچھ عرصہ قبل نریندر مودی بھی قبل از انتخابات کرانے کے موڈ میں تھے مگر اٹل بہاری واجپائی کے واقعے سے سبق لیتے ہوئے انھوں نے ایسا نہیں کیا۔[16] مارچ 2019ء کے پہلے ہفتہ میں بھارتی الیکشن کمیشن انتخابی تاریخوں کا اعلان کرے گی۔[17]

انتخابات کی تاریخیں

بھارت کا نقشہ جس میں انتخابی مراحل کو دکھایا گیا ہے۔
مرحلہتاریختعداد حلقہ جاتصوبے اور یونین علاقے
111 اپریل9120آندھرا پردیش، اروناچل پردیش، آسام، بہار، چھتیس گڑھ، جموں و کشمیر، مہاراشٹر، میزورم، منی پور، ناگالینڈ، اوڈیشا، سکم، تلنگانہ، تریپورہ، اترپردیش، اتراکھنڈ، مغربی بنگال، انڈمان و نکوبار، لکشادیپ
218 اپریل9713آسام، بہار، چھتیس گڑھ، منی پور، جموں اور کشمیر، کرناٹک، مہاراشٹرا، اوڈیشا، تمل ناڈو، تریپورہ، اترپردیش، مغربی بنگال، پدوچیری
323 اپریل11514

آسام، بہار، چھتیس گڑھ، گجرات، گوا، جموں و کشمیر، مہاراشٹر، اوڈیشا، کرناٹک، کیرلا، تریپورہ، اترپردیش، اتراکھنڈ، مغربی بنگال، دادرا و نگر حویلی، دمن و دیو

429 اپریل719بہار، جموں اور کشمیر، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیس، مہاراشٹرا، اوڈیشا، راجستھان، اترپردیش، مغربی بنگال
56 مئی517بہار، جموں و کشمیر، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، اترپردیش، مغربی بنگال
612 مئی597بہار، ہریانہ، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، اترپردیش، مغربی بنگال، دہلی
719 مئی598بہار، ہماچل پردیش، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، پنجاب، مغربی بنگال، چندی گڑھ، اترپردیش
تمام صوبہ جات میں انتخابی حلقہ جات بلحاظ انتخابی جماعت
ریاست/یونین علاقہکُل
حلقہ جات
انتخاب کی تاریخ اور حلقوں کی تعداد
مرحلہ 1مرحلہ 2مرحلہ 3مرحلہ 4مرحلہ 5مرحلہ 6مرحلہ 7
11 اپریل18 اپریل23 اپریل29 اپریل6 مئی12 مئی19 مئی
آندھرا پردیش2525
اروناچل پردیش22
آسام14554
بہار404555588
چھتیس گڑھ11137
گوا22
گجرات2626
ہریانہ1010
ہماچل پردیش44
جموں و کشمیر62213[n 1]13[n 1]113[n 1]
جھارکھنڈ143443
کرناٹک281414
کیرلا2020
مدھیہ پردیش296788
مہاراشٹر487101417
منی پور211
میگھالیہ22
میزورم11
ناگالینڈ11
اوڈیشا214566
پنجاب1313
راجستھان251312
سکم11
تمل ناڈو3938[n 2]
تلنگانہ1717
تریپورہ211
اتر پردیش80881013141413
اتراکھنڈ55
مغربی بنگال422358789
جزائر انڈمان و نکوبار11
چندی گڑھ11
دادرا و نگر حویلی11
دمن و دیو11
دہلی77
لکشادیپ11
پدوچیری11
حلقہ جات543919511613711350135959
ساتوں مراحل کے اختتام پر کل نشستوں کی تعداد911863021337323424483542[n 2]
مرحلے کے اختتام پر فیصد مکمل17%34%56%69%78%89%100%

منسوخی اور دوبارہ ووٹنگ

  • ویلور، تامل ناڈو: ڈی ایم کے کے ایل لیڈر کے پاس 11 کرور روپئے برآمد ہوئے۔ یہ ووٹروں کو رشوت دینے کی خاطر لے جائے جا رہے تھے۔[18] چھاپہ ماری کے دوران ملے ثبوت کی بنیاد الیکشن کمیشن نے ویلور انتکابی حلقہ میں 18 اپریل کو ہونے والی ووٹنگ کو منسوخ کر دیا۔ ڈی ایم کے نے اسے ایک سازش قرار دیا اور کسی بھی طرح کے جرم سے صاف انکار کیا ہے۔[19]
  • مشرقی تریپورہ، تریپورہ : یہاں بھارتی الیکشن کمیشن نے لا اینڈ آرڈر کا حوالہ دیتے ہوئے ووٹنگ کی تاریخ 18 سے 23 اپریل کردی۔ اسپیشل پولس کی اطلاعات کے مطابق 18 اپریل کو انتخابات کروانا مناسب نہیں تھا۔[20]

انتخابی مہم

12 جنوری 2019ء کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی انتخابی مہم کا آغاز کیا۔ مودی دوسرے دور کا عزم لیے ہوئے ہیں۔[21] سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مودی اور بی جے پی ایک مرتبہ پھر ہندو قومیت کی بنیاد پر انتخاب لڑنے جا رہے ہیں۔ واضح ہو کہ ہندو قومیت کے سیلاب میں روزگار اور معاشی ترقی جیسے مُدعے غائب ہو جاتے ہیں۔[22][23]اسی دن بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی اور سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھیلیش یادو نے اپنا اتحاد بنایا اور اتر پردیش کی 80 لوک سبھا نشستوں میں سے 78 پر لڑنے کا فیصلہ کیا۔ دو نشستیں انھوں نے راہل گاندھی (امیٹھی) اور سونیا گاندھی (رائے بریلی کے لیے چھوڑ دیں۔ اس اتحاد میں کانگریس کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ مایاوتی اپنے اس فیصلے کا بچاو کرتے ہوئے کہتی ہیں ”کانگریس کو شامل کر کے ہمارا اتحاد نقصان میں ہو گا کیونکہ اس سے ووٹ بنٹ جائیں گے۔“ 25 سال قبل 1993ء میں بھی ایسا ہی اتحاد دیکھنے کو ملا تھا۔[24]

مدعے

سرکاری اداروں کا بیجا استعمال

انتخابی مہم کے دوران مخالف پارٹیوں نے این ڈی اے پر سرکاری اداروں اور عہدہ کا ذاتی استعمال کا الزام لگایا۔ ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی اور این ڈی اے نے جمہوریت کی روح کو مجروح کیا ہے۔ ممتا بنرجی اس موضوع پر کھل کر مخالفت کی۔[25] جوابًا مودی نے اسے ایک مذاق سے تعبیر کیا۔ انھوں نے خود کانگریس اور کمیونسٹوں نے پولیس، سی بی آئی اور سی اے جی سمیت کئی سرکاری اداروں کا بے جا فائیدہ اٹھایا کیا اور ذاتی مصرف کے لیے استعمال کیا۔ انھوں نے کیرلا اور مدھیہ پردیش می بے جے پی کارکنان کی موت کا بھی حوالہ دیا۔[26]بر سر اقتدار وزیر اعظم کے راست نام سے نمو ٹی وی چینل کا شروع ہونا اور اس کا مختلف زمروں میں ڈی ٹی ایچ کمپنیوں کی جانب سے دکھایا جانا بھی ایک موضوع نزاع بن گیا۔

معاشی مسائل

دی ٹائمز آف انڈیا کی ایک خبر کے مطابق موجودہ این ڈی اے کی حکومت کی کامیابیوں میں افراط زر کا سے کم 4 فیصد ہونا، جی ایس ٹی کی اصلاحات وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے کئی معاشی فیصلوں نے بھارت کی اکثر آبادی کو برہ راست فائدہ پہنچایا ہے۔ جیسے جن دھن یوجنا، دیہی علاقوں میں پکانے والی گیس اور بجلی کی فراہمی وغیرہ۔[27] بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطابق بھارت کی معیشت ان دنوں تیزی سے ترقی کررہی ہے۔ دنیا کی بڑی معیشتوں میں بھارت کی جی ڈی پی سب سے زیادہ ہے۔ مالیاتی سال 2019ء-2020ء اور 2020ء-2021ء میں بھارت سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا ملک بن سکتا ہے۔ اس دوران میں جی ڈی پی 7.3 کے آس پاس رہنے کا امکان ہے۔[28][29][30] مگر بھارت کے کئی معاشی ادارے، سماجی ادارے، ماہرین اقتصادیات اور مخالف جماعتوں نے جی ڈی پی کے تعلق تشویش کا اظہار کیا ہے اور ان نمبرات کو غلط بتایا ہے۔[27][31]

کاشت کاری اور کسان

کسانوں کو اناج کی قیمتیں کم ملنا اور ان کی ترقی میں رکاوٹ کی وجہ سے عوام حکومت سے سخت ناراض ہے۔[32][33] اور ملک بھر میں وسیع پیمانے پر مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے خلاف احتجاج ہو رہے ہیں۔[34][35][36][37] مرکزی حکومت نے عوام کے غصہ کو کم کرنے کے لیے اناج کی ایک قیمت متعین کی مگر اس کا نفاذ حکومت کے لیے ٹھیڑھی کھیر ثابت ہورہا ہے جس کی وجہ سے یہ معاملہ اب کافی گرما گیا ہے اور عوام اور کسانوں کے بیچ اب بحث کا مُدعا بنتا جا رہا ہے۔[38][39][40][41][42]بھارت کے عبوری بجٹ، 2019ء میں حکومت نے پی ایک کسان اِسکیم کا اعلان کیا جس کی رو سے ہر چھوٹے کسان کو سالانہ 6000 روپئے ملیں گے،[43][44] لیکن ملک کے مختلف حصوں میں حکومت کے اس قدم کو ناکافی بتایا گیا ہے۔[45][46][47][48][49][50][51] حکومت کی اسکیموں سے ناراض کسانوں نے 14 فروری 2019ء کو بند کا اعلان کیا۔[52] حکومت مغربی بنگال سے آل انڈیا ترنمول کانگریس اور حکومت مدھیہ پردیش سے انڈین نیشنل کانگریس نے پی ایم کسان اسکیم کی سخت مخالفت کی ہے۔[53]

راہل گاندھی نے وعدہ کیا ہے کہ اگر کانگریس کی حکومت بنتی ہے تو کسانوں کے قرض معاف کر دیے جائیں گے۔[54] وزیر اعظم مودی نے اسے ووٹ حاصل کرنے والا جملہ قرار دیا ہے۔[55]

نوکریوں میں کمی

بھارت میں بے روزگاری مسلمل بڑھ رہی ہے۔[56] بھارت میں 500 اور 1000 کے نوٹوں کا اسقاط زر کی وجہ سے 1.5 ملین نوکریاں ضائع ہو گئی ہیں۔[57] نئے ٹیکس کے نظام نے بھی بے روزگاری اور نوکری کی میں اپنا منفی کردار ادا کیا ہے۔[58][59]

7 فروری 2019ء کو مرکزی حکومت نے نوکریوں کی کمی کا انکار کیا ہے۔[60] وزیر اعظم نے دعوی کیا ہے کہ نوکریوں کی کمی نہیں ہے البتہ اعداد و شمار صحیح پیش نہیں کیے جا رہے ہیں۔[61][62] سی ایم آئی ای کے واضح کیا ہے کہ محض 2018ء میں 11 ملین نوکریاں ضائع ہوئی ہیں۔[63] حکومت بے روزگاری کی سرکاری رپورٹ شائع کرنے میں تاخیر سے کام لے رہی ہے۔[64] قومی کمیشن برائے اعداد و شمار کے صدر نشین نے یہ کہتے ہوئے استعفی دے دیا ہے کہ حکومت نے سال 2017ء-2018ء کی بے روزگاری کی رپورٹ شائع نہیں ہونے دی۔[65] ان کے علاوہ کئی سرکاری افسران نے بھی حکومت پر ان کو کام نہ کرنے دینے کا الزام لگاتے ہوئے احتجاجا استعفی دے دیا ہے۔ اسی دوران میں ایک رپورٹ لیک ہو گئی جس میں لکھا ہے کہ سال 2017ء-2018ء بے روزگاری گذشتہ 45 برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔[66] حالانکہ حکومت یہ کہ کر پلہ جھاڑ رہی ہے یہ رپورٹ حتمی نہیں ہے۔[67] لیکن چیرمین کا دعوی ہے کہ حکومت رپورٹ کو چھپانا چاہتی ہے۔[68] کمیشن کے ایک سابق چیرمین نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ کمیشن کی منظور کردہ رپورٹ کہ حتمی ہے۔[69]7 فروری 2019ء کو تقریباً 30 ہزار نوجوانوں نے قومی دارالحکومت علاقہ دہلی میں “ینگ انڈیا ادھیکار“ مارچ نکالا اور نوکریوں میں کمی کی وجہ سے حکومت کے خلاف احتجاج کیا۔[70]

حکومتی اداروں اور کام کاج کا غلط استعمال

مخالف پارٹیوں نے موجودہ مرکزی حکومت پر حکومتی اداروں اور کام کاج کو بے جا اور غلط استعمال کا الزام لگایا ہے۔ ان کا دعوی ہے موجودہ حکومت تمام اداروں میں اپنی من مانی کرتی ہے۔ ان کا الزام ہے کہ حکومت نے عدلیہ[71]، پارلیمان [72]، میڈیا، [73] ریزرو بینک آف انڈیا،[74] سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن[75][76] اور قانون حق معلومات، 2005ء، [77][78] کو بری طرح متاثر کیا ہے اور ان کے کام کاج کے طریقہ کار کو نظر اندان کرتے ہوئے اپنا حکم چلانے کی کوشش کی ہے۔[79]

3 فروری و2019ء کو آل انڈیا ترنمول کانگریس کی صدر ممتا بنرجی نے کولکاتا میں ”دستور بچاو تحریک“ دھرنا دیا۔[80] ان کا الزام تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی صدر امت شاہ نے مغربی بنگال میں ایک پولیس افسر کے ساتھ زیادتی کی ہے۔[81] بی جے پی کا کہنا ہے کہ ممتا بنرجی بدعنوانی کو چھپانے کے لیے دھرنا دے رہی ہیں۔[82] حالانکہ انڈین نیشنل کانگریس، عام آدمی پارٹی، تیلگو دیشم پارٹی، راشٹریہ جنتا دل، جموں اور کشمیر نیشنل کانفرنس، مکل نیدھی مایم اور ڈراوڈا منیترا کژگم نے ممتا بنرجی سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔[83] ترنمول کانگریس اور بی جے پی کا جھگڑا بھارتی عدالت عظمیٰ کے ایک فیصلہ سے ختم ہوا جسے دونوں پارٹیاں اپنی فتح بتا رہی ہیں۔[84]

بابری مسجد اور رام مندر

بی جے پی علی الاعلان رام مندر کی تائید کرتی ہے اور اسے بنانے کی وکالت کرتی ہے۔گذشتہ انتخابات میں بھی بی جے پی ایودھیا میں موجود ایودھیا تنازع کو انتخابی مہم میں استعمال کیا تھا اور رام مندر بنانے کا دعوی کیا تھا جسے وہ شرمندہ تعبیر نہ کرسکے۔ اس مرتبہ بھی ہندو ووٹ حاصل کرنے کے لیے نریندر مودی اور اتر پردیشکے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ رام مندر کی حمایت میں زبردست مہم چلانے والے ہیں۔[85][86][87]

رافیل تنازع

اپوزیشن پارٹیوں نے حکومت پر رافیل معاملے میں زیادہ قیمت اور ایک خاص کمپنی کو فائدہ پہنچانے کا الزام لگایا ہے۔[88][89] حکومت وقت نے اسے سراسر بے بنیاد الزام بتایا ہے۔[90]اس معاملہ میں بھارتی عدالت عظمیٰ نے بھارت کے مفاد عامہ مقدمات یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ رافایل معاملہ میں تمام رسمی کارروائیاں کی گئی ہیں اور انل امبانی کو فائدہ نہیں پہنچایا گیا ہے۔[91] حالانکہ اس فیصلہ کی چوطرفہ تنقید ہقئی کیونکہ اس میں بھارتی ناظر حسابات و محاسب عام اور پبلک اکاونٹس کمیٹی کے رپورٹس کو نظر انداز کیا گیا ہے حتی کہ ان کی تفتیشوں کو بھی شمال نہیں کیا گیا ہے۔[92][93] کانگریس کا دعوی ہے کہ حکومت نے عدالت کو گمراہ کیا ہے اور کیگ کی رپورٹ پر بھی سوالہ نشان کھڑا کیا ہے۔[94] حکومت نے کہا ہے کہ اس نے عدالت کو گمراہ نہیں کیا ہے [95] بلکہ عدالت حکومت کی بات نہیں سمجھ پائی۔[96]حکومت نے عدالت سے فیصلہ پر نطر ثانی کرنے کی درخواست کی ہے۔[97] 2 جنوری 2019ء کو عدالت میں اس فیصلہ پر نطر ثانی کرنے کی درخواست دی گئی ہے۔[98] عام آدمی پارٹی نے بھی 14 جنوری کے فیصلہ پر نطر ثانی کرنے کی درخواست کی ہے۔[99] کانگریس پارلیمان کا مشترک اجلاس کی مانگ کررہی ہے تاکہ اس مسئلہ پر تحقیق کی جا سکے۔[100][101]کانگریس نے اس معاملہ کو انتخابی مدعا بنایا ہے اور نریندر مودی اور بی جے پی ہر زبردست لفظی حملے کیے ہیں۔[102][103]کانگریس کا دعوی اس وقت مزید مضبوط ہو گیا جب دی ہندو اخبار نے خبر شائع کی کہ وزیر اظم نریندر مودی نے رافایل بات چیت کو نطر انداز کرتے ہوئے خود متوازی گفتگو کا انعقاد کیا۔[104][105] وزیر دفاع نرملا سیتارمن نے کانگریس کے دعوی کو جھوٹا بتایا ہے۔[106] ایک اور رپورٹ مطابق سابق وزیر دفاع منوہر پاریکرکا نام بھی سامنے آیا ہے۔[107]

اتحاد

عام انتحابات نتائج بلحاظ اتحاد *   قومی جمہوری اتحاد *   متحدہ ترقی پسند اتحاد *   دیگر علاقائی و غیر اتحادی جماعتیں

قومی جمہوری اتحاد

2019ء کے عام انتخابات کے لیے قومی جمہوری اتحاد کی فہرست:

جماعتگڑھنشستیں
لڑاجیتا
بھارتیہ جنتا پارٹی[108]قومی جماعت437303
شیو سینا[109]مہاراشٹر2318
جنتا دل (متحدہ)[108]بہار1716
شرومنی اکالی دل[108]پنجاب102
لوک جن شکتی پارٹی[108]بہار66
آل انڈیا انا ڈراوڈا منیترا کژگم[110]تمل ناڈو201
اپنا دل سونی لالاترپردیش22
آل جھارکھنڈ اسٹوڈنت یونینجھارکھنڈ11
پاٹالی مکل کچی[110]تمل ناڈو70
آل انڈیا این آر کانگریسپونڈیچیری10
آسوم گنا پریشدآسام30
بھارت دھرما جنا سیناکیرلہ40
دیسیا مرکوپو دراویڈا کثراگمتامل ناڈو40
راشٹروادی قومی ترقیاتی پارٹیناگالینڈ11
راشٹریا لوک تاتنترک پارٹیراجستھان11
سوما لتا (آزاد امیدوار)کرناٹک11
پتھیا تاملا گمتامل ناڈو10
پتھیا نیدھی کاچھیتامل ناڈو10
تامل منیلا کانگرستامل ناڈو10
بوڈو لینڈ پیپلز فرنٹآسام10
کیرلہ کانگرس (تھامس)کیرلہ10
قومی جمہوری اتحاد543352

1متحدہ ترقی پسند اتحاد

جماعتگڑھنشستیں
لڑاجیتا
انڈین نیشنل کانگریس[111]کچھ نشستیں
راشٹروادی کانگریس پارٹی[111]کچھ نشستیں24
جھارکھنڈ مکتی مورچہ[112]جھارکھنڈ4
جھارکھنڈ وکاس مورچا (پرجاتانترک)[112]جھارکھنڈ2
راشٹریہ جنتا دلبہار
ڈراوڈا منیترا کژگمتمل ناڈو
مرومالرچھی ڈراوڈا منیترا کژگمتمل ناڈو
ویڈوتلئی سیروتائیگل کچیتمل ناڈو
انڈین یونین مسلم لیگتمل ناڈو1
متحدہ ترقی پسند اتحاد543اعلان ہونا باقی

مہا گٹھ بندھن

جماعتگڑھنشستیں
لڑاجیتا
بہوجن سماج پارٹی [113]اترپردیش38
سماجوادی پارٹی[113]اترپردیش38

ووٹر اعداد و شمار

بھارت کے الیکشن کمیشن کے مطابق، 90 کروڑ سے زائد بھارتی شہری ووٹ کے لیے اہل تھے، جو 2014 کے انتخابات کے مقابلے میں 8 کروڑ 43 لاکھ زیادہ تھا۔[114][115]یہ دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا الیکشن تھا۔[116]1.5 کروڑ 18-19 سال کے بھارتی نوجوان پہلی بار ووٹ دینے کی عمر کو پہنچے۔[117][118] 46 کروڑ 80 لاکھ ووٹر مرد جبکہ 43 کروڑ 20 لاکھ ووٹر خواتین تھیں۔ 38 ہزار 325 تیسری صنف کے لوگ اور 71 ہزار 735 بیرون ملک مقیم بھارتیوں نے بھی ووڑنگ میں حصہ لیا۔ 2015 کے بھارت-بنگلہ دیش سرحدی معاہدہ کے بعد سابقہ انکلیوز میں رہنے والے شہریوں نے بھی پہلی بار ووڑنگ میں حصہ لیا۔[119]

الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور ان کی سکیورٹی

بھارتی الیکشن کمیشن نے 17 لاکھ 40 ہزار ووٹر سے تصدیق شدہ پیپر آڈٹ ٹریل (VVPAT) یونٹس اور 39 لاکھ 96 ہزار الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں 10 لاکھ 35 ہزار 918 پولنگ اسٹیشنز میں تعینات کیا گیا۔ [120][121][122][123]قریباً 2 لاکھ 70 ہزار نیم فوجی دستے اور 20 لاکھ پولیس کے دستوں نے مختلف پولنگ بوتھوں پر تنظیمی تعاون اور سیکورٹی ڈیوٹی انجام دی۔[124]9 اپریل 2019 میں سپریم کورٹ نے بھارتی الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ وہ ووٹر سے تصدیق شدہ پیپر آڈٹ ٹریلسلپس ووٹوں کی گنتی کو فی اسمبلی حلقہ پانچ تصادفی طور پر منتخب کردہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینتک بڑھا دے، جس کا مطلب یہ تھا کہ الیکشن کمیشن کو حتمی انتخابی نتائج کی تصدیق کرنے سے پہلے 20,625 الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی ووٹر سے تصدیق شدہ پیپر آڈٹ ٹریل سلپس کی گنتی کرنی تھی۔[125][126][127]

ووٹنگ

پہلے مرحلہ میں 91 لوک سبھا نشستوں پر 14 کروڑ 20 لاکھ ووٹرزمیں سے 69.58 فیصد ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا۔[128]انہی حلقوں میں 2014 میں 68.77 فیصد تھا۔[128]دوسرے مرحلے میں 95 لوک سبھا نشستوں پر 15 کروڑ 60 لاکھ ووٹرز میں سے 69.45 فیصد نے حق رائے دہی استعمال کیا جو 2014 میں 69.62 تھا۔ [128]تیسرے مرحلے میں 116 لوک سبھا حلقوں میں 18 کروڑ 90 لاکھ ووٹروں نے حق رائے دہی استعمال کیا۔[128]تیسرے مرحلے کا ٹرن آؤٹ 68.40 فیصد تھا جو 2014 میں 67.15 فیصد تھا۔[128]چوتھے مرحلے میں 72 لوک سبھا نشستوں کیلئے12 کروڑ 80 لاکھ ووٹرز میں سے 65.50 فیصدنے حق رائے دہی استعمال کیا۔ جو 2014 میں 63.05 فیصد تھا۔[128]پانچویں مرحلے میں 50 لوک سبھا حلقوں میں 8 کروڑ 75 لاکھ ووٹرز میں سے 63.50 فیصد نے 96 ہزار سے زائد پولنگ بوتھ میں حق رائے دہی استعمال کیا۔[129]چھٹے مرحلے میں 59 لوک سبھا حلقوں کے لیے 10 کروڑ 10 لاکھ ووٹرز میں سے 63.48 فیصد نے 1 لاکھ 13 ہزار پولنگ اسٹیشنز میں حق رائے دہی استعمال کیا۔[130]ساتویں اور آخری مرحلے میں 59 لوک سبھا نشستوں کے لیے 61.71 فیصد ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ پورے انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ 67.11 فیصد رہا جو بھارت کی تاریخ کا سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ تھا اور 2014 کے 65.95 فیصد ٹرن آؤٹ کے مقابلے میں 1.16 فیصد زیادہ تھا۔[131] 60 کروڑ سے زیادہ بھارتی شہریوں نے ووٹ نگ میں حصہ لیا۔

سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ لکشادیپ میں 84.96 فیصدجبکہ سب سے کم ٹرن آؤٹ جموں و کشمیر میں 44.97 فیصد تھا۔

ریاست/متحدہ عملداریٹوٹلمرحلہ وار ووٹر ٹرن آؤٹ[128][ا]
مرحلہ 1

11 اپریل

مرحلہ 2

18 اپریل

مرحلہ 3

23 اپریل

مرحلہ 4

29 اپریل

مرحلہ 5

6 مئی

مرحلہ 6

12 مئی

مرحلہ 7

19مئی

نشستیںٹرن آؤٹ

(%)

نشستیںٹرن آؤٹ

(%)

نشستیںٹرن آؤٹ

(%)

نشستیںٹرن آؤٹ

(%)

نشستیںٹرن آؤٹ

(%)

نشستیںٹرن آؤٹ

(%)

نشستیںٹرن آؤٹ

(%)

نشستیںٹرن آؤٹ

(%)

آندھرا پردیش2579.70 2579.70  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –
اروناچل پردیش278.47 278.47  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –
آسام1481.52 578.27 581.19 485.11  –  –  –  –  –  –  –  –
بہار4057.33 453.44 562.92 561.21 559.18 557.08 858.48 851.38
چھتیس گڑھ1171.48 166.04 374.95 770.73  –  –  –  –  –  –  –  –
گوا274.94  –  –  –  – 274.94  –  –  –  –  –  –  –  –
گجرات2664.11  –  –  –  – 2664.11  –  –  –  –  –  –  –  –
ہریانہ1070.34  –  –  –  –  –  –  –  –  –  – 1070.34  –  –
ہماچل پردیش470.22 –  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –  – 470.22
جموں و کشمیر'"`UNIQ--nowiki-000001CF-QINU`"'ب'"`UNIQ--nowiki-000001D0-QINU`"'644.97 257.38 245.66 1313.68 1310.32 11319.92  –  –  –  –
جھارکھنڈ1466.80  –  –  –  –  –  – 364.97 465.99 465.42 355.59
کرناٹک2868.63  –  – 1468.80 1468.47  –  –  –  –  –  –  –  –
کیرالہ2077.67  –  –  –  – 2077.67  –  –  –  –  –  –  –  –
مدھیہ پردیش2971.10  –  –  –  –  –  – 674.90 769.14 865.24 875.64
مہاراشٹر4860.79 763.04 1062.85 1462.36 1757.33  –  –  –  –  –  –
منی پور282.75 184.20 181.24  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –
میگھالیہ271.43 271.43  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –
میزورم163.12 163.12  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –
ناگالینڈ183.09 183.09  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –
اوڈیشہ2173.06 473.82 572.56 671.62 674.38  –  –  –  –  –  –
پنجاب1365.96 –  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –  – 1365.96
راجستھان2566.34  –  –  –  –  –  – 1368.17 1263.71  –  –  –  –
سکم178.81 178.81  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –
تامل ناڈو'"`UNIQ--nowiki-000001D2-QINU`"'پ'"`UNIQ--nowiki-000001D3-QINU`"'3872.02  –  – 3872.02  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –
تلنگانہ1762.711762.71 –  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –
تریپورہ283.20 183.21  –  – 183.19  –  –  –  –  –  –  –  –
اتر پردیش8059.21 863.92 862.46 1061.42 1359.11 1458.00 1454.441347.82
اتراکھنڈ561.48 561.48  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –
مغربی بنگال4281.76 283.80 381.72 581.97 882.84 780.09 884.50978.73
انڈمان و نکوبار جزائر165.08 165.08  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –
چندی گڑھ170.62 –  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –  – 170.62
ددرا و نگر حویلی179.59  –  –  –  – 179.59  –  –  –  –  –  –  –  –
دمن و دیو171.83  –  –  –  – 171.83  –  –  –  –  –  –  –  –
دہلی760.51  –  –  –  –  –  –  –  –  –  – 760.51  –  –
لکشادیپ184.96 184.96  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –
پدوچری181.21  –  – 181.21  –  –  –  –  –  –  –  –  –  –
کُل54267.11 9169.58 9569.45 1161368.40 711365.50 501364.16 5964.405961.71

عوامی استصواب رائے

عمومی انتخابات کا بگل بجتے ہی بہت سی تنظیمیں بھارت کا انتخابی رجحان جاننے کے لیے استصواب رائے شروع کر دیتی ہیں اور فہرست میں ان کے نتیجے دکھائے جاتے ہیں۔ گذشتہ عام انتخابات (2014) کے تین استصواب رائے جو اپریل اور مئی کے درمیان میں ہوئے تھے، کی فہرست حسب ذیل ہے:

تاریخاستصواب رائے ایجنسیاین ڈی اےدیگریو پی اےبڑھت
مئی 2018اے بی پی نیوز- سی ایس ڈی ایس274105164110
جنوری 2018ریپبلک- سی ووٹر33511989216
جنوری 2018انڈیا ٹوڈے309132102177
جنوری 2018اے بی پی نیوز- سی ایس ڈی ایس301115127174
اگست 2018انڈیا ٹوڈے34911975230
جنوری 2018انڈیا ٹوڈے37012360237
اگست 2018انڈیا ٹوڈے30414594159
فروری 2018انڈیا ٹوڈے286147110139
اگست 2018انڈیا ٹوڈے28817481114
اپریل-مئی 2018نتیجہ برائے عمومی انتخابات33614760189

مزید دیکھیے

حواشی

حوالہ جات

ٗٗ