بھارتی الیکشن کمیشن

بھارتی الیکشن کمیشن (ہندی: भारत निर्वाचन आयोग) ایک خود مختار ادارہ ہے جو بھارتی انتخابات کی ذمہ داری نبھاتا ہے۔ یہ ایک انتظامی ادارہ ہے اور لوک سبھا، راجیہ سبھا، صوبائی اسمبلی انتخابات، صدر بھارت اور نائب صدر بھارت کے انتخابات اسی کے زیر انتظام منعقد ہوتے ہیں۔[1][2] بھارتی الیشکن کمیشن دستور ہند کی دفعہ 324 کے تحت کام کرتا ہے،[3] اور عوام کی نمائندگی ایکٹ کو نافذ بھی کرتا ہے۔[4]۔ + اگر الیکشن کے نفاذ میں قانون کوئی ناکافی پروویژن بناتا ہے تو دستور ہند الیکشن کمیشن کو ان حالات سے نمٹنے کی طاقت فراہم کرتا ہے۔ ایک آئینی ادارہ ہونے کی وجہ سے الیکشن کمیشن بھارتی سپریم کورٹ، یونین پبلک سروس کمیشن اور بھارتی ناظر حسابات و محاسب عام کے عام ساتھ ان اداروں میں شامل ہے جو اپنا کام خود مختاری اور مکمل آزادی سے کرتا ہے۔

بھارتی الیکشن کمیشن
The official logo Election Commission of India
Commission کا جائزہ
قیام25 January 1950 (Later celebrated as National Voters Day)
دائرہ کار بھارت
صدر دفترNirvachan Sadan, Ashoka Road, نئی دہلی
28°37′26″N 77°12′41″E / 28.623902°N 77.21140000000003°E / 28.623902; 77.21140000000003
ملازمینAround 300[1]
Commission افسرانِ‌اعلٰی
  • Om Prakash Rawat، IAS، Chief Election Commissioner of India
  • Sunil Arora، IAS، Election Commissioner of India
  • Ashok Lavasa، IAS، Election Commissioner of India
ویب سائٹOfficial Website

ڈھانچہ

ابتدائی طور پر سنہ 1950ء میں کمیشن میں صرف ایک چیف الیکشن کمشنر ہوتا تھا۔ 16 اکتوبر سنہ 1989ء کو دو مزید کمشنر نامزد کیے گئے مگر بہت کم مدت کے بعد ان کو جنوری 1990ء میں معزول کر دیا گیا۔ الیکشن کمشنر ترمیم ایکٹ 1989ء کے تحت الیکشن کمیشن کو کثیر رکنی ادارہ بنایا گیا۔ اسی وقت سے الیشکن کمیشن سہ رکنی ادارہ ہے۔ یہ فیصلہ اکثریتی ووٹ کی بنا پر کیا گیا تھا۔[1] چیف الیکشن کمشنر اور دیگر دو کمشنر جو زیادہ تر سبکدوش آئی ایس آفیسر ہوتے ہیں، اپنی تنخواہ اور دوسرے بھتے بھارتی سپریم کورٹ کے جج کے برابر پاتے ہیں چیف الیکشن کمشنر اور دیگر دو کمشنر (شرائط خدمات) ایکٹ، 1992-۔ [5]الیکشن کمیشن نئی دہلی میں واقع سیکریٹریٹ کی طرف سے خدمات انجام دیتی ہے۔[1] ڈپٹی الیکشن کمشنر-جو زیادہ تر آئی آفیسر ہوتے ہیں - چیف الیکشن کمشنر کی مدد کرتے ہیں۔ پھر ان کے نیچے ڈائیریکٹر جنرل، پرنسپل سکریٹری اور ان کے تابع دار سکریٹری ان کی مدد کو موجود رہتے ہیں۔ [1][6]صوبائی سطح پر پرنسپل درجے کے آئی ایس ایس آفیسر جن کا عہدہ چیف الیکٹورل آفیسر کا ہوتا ہے وہ الیکشن کمیشن کی مدد کرتے ہیں۔ ضلع اور انتخابی حلقہ کی سطح پر اس کی مدد ڈسٹکرکٹ میجسٹریٹ (اپنی وسعت کے بقدر) ، الیکٹورل رجسٹریشن آفیسر اور رٹرننگ آفیسر الیکشن کروانے میں مدد کرتے ہیں۔[1][6]

دفتر سے معزولی

عدم صلاحیت اور غلط برتاؤ کی بنیاد پر چیف الیکشن کمشنر کو بھارتی سپریم کورٹ کے جج کی طرحبھارتی پارلیمان سے ایک قرارداد منظور (دو تہائی اکثریت لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں ) ہو نے کے بعد معزول کیا جا سکتا ہے۔ اس طریقہ عمل کو امپیچمینٹ کیا جاتا ہے۔ دیگر الیکشن کمشنر کو چیف الیکشن کمشنر کی درخواست پر بھارت کا صدر معزول کر سکتا ہے۔ ابھی کوئی بھی چیف الیشکن کمشنر معزول نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ سنہ 2009 میں انتخابات سے قبل چیف الکشن کمشنر این۔ گوپال سوامی نے صدر بھارت پرتیبھا پاٹل کو الیکشن کمشنر نوین چاولا کو ایک مخصوص سیاسی جماعت کی طرفداری کا حوالہ دیتے ہوئے ہٹانے کی سفارش بھیجی۔ حالانکہ وہ حال ہی میں اس عہدہ پر فائز ہوئے تھے اور لوک سبھا انتخابات کی نگرانی کرنے والے تھے۔ [7] صدر نے رائے دی کہ یہ سفارش ان کے ذریعے واجب العمل نہیں ہے لہذا وہ سفارش مسترد کر دی گئی۔ [8] اس واقعہ بعدکے اگلے ماہ گوپال سوامی رٹائر ہوئے اور چاولہ چیف الیکشن کمشنر بنے اور 2009 لوک سبھا انتخابات ان کی ہی نگرانی میں ہوئے۔ [9]

کام کاج

جمہورت کی سب سے بڑی خوبیوں میں ایک انتخابات کا ایک طے شدہ پر وقت پر بار بار ہونا ہے۔ صاف ستھرا الیکشن جمہوری طرز حکومت کا ایک ناگزیز حصہ ہے اور اور دستور کا ایک بنیادی ڈھانچہ بھی۔ الیکشن کمیشن ریاست میں انتخابات کی زمہ دار و نگہبان ہے۔ ہر انتخابات میں یہ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے لیے طرز عمل کا ماڈل کوڈ جاری کرتا ہے تاکہ انتخابات صاف و شفاف طریقے سے اختتام پزیر ہو۔ کمیشن نے سب سے پہلے سنہ 1971 ء میں 5واں لوک سبھا انتخابات میں طرز عمل کا ماڈل کوڈ جاری کیا اور اس کے بعد وقتا فوقتا اس مین ترمیم ہوتی رہی۔ حالانکہ مختلف سیاسی جماعتوں کے ذریعے الیکشن کمیشن کے قوانین کی خلاف ورزی بھی ہوتی رہی اور اپنے عہدے اور حکومت کی مشینری کے غلط اور ناجائز استعمال کی شکایات بھی موصول ہوئیں۔ [10][11] حالانکہ الیکشن کمیشن کے کوڈ کسی خاص قوانین کی بنیاد پر نہیں ہیں لیکن اطمینان بخش ضرور ہیں۔ [10][11] اس کے قوانین دراصل ضابطہ اخلاق کی پابندیاں ہیں۔ [10][11]۔ البتہ قانونی بنیاد کی عدم موجودگی الیشکن کمیشن کو کوڈ کے نفاذ سے نہیں روکتی ہے۔ [10][11][12][13][14]سیاسی جماعتوں کو رجسٹر کرنے کا قانون سنہ 1989 میں نافذ ہوا اور متعدد قومی، صوبائی اور علاقائی جماعتیں رجسٹر ہوئیں۔ [15]سیاسی جماعتوں کو نشان فراہم کرنے کا اختیاد الیشن کمیشن کو ہوتا ہے۔کمیشن ہی قومی، صوبائی و علاقائی جماعتوں کو شناخت دیتا ہے ۔ اور انتخابی خرچوں پر حد متعین کرتا ہے۔ نامزدگی کا پرچہ بھروانا، انتخاب کی تاریخوں کا اعلان کرنا، الیکٹرورل رول کی تیاری، ووٹروں کی فہرست تیار کرنا، وغیرہ سب کمیشن کے ذریعے انجام پاتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کمیشن دو جماعتوں کو یکساں نشان نہیں دے سکتی گرچہ کہ وہ دونوں الگ الگ صوبوں سے ہوں۔ [16]

کمیشن کو استصواب رائے اور ایکژٹ پول پر پابندی لگانے کا پورا اختیار ہے تاکہ وہ انتخابی نتائج کو متاثر نہ کریں۔ [17][18][19]

انتخابات میں پیسوں کے اثر کو کم کرنے کے لیے کمیشن کی کچھ تجاویز تیار کی ہیں۔ کمیشن نے آئی آر ایس افسران کو تمام انتخابات کے خرچوں کا نگہبان بنایا اور ایک امیدوار اپنی انتخابی مہم میں کتنی رقم خرچ کر سکتا ہے اس پر بھی ایک حد متعین کی اور وقتا فوقتا ااس حد میں تبدیلی بھی ہوتی رہی۔ [20][21] کمیشن نامزدگی کے وقت امیدوار کے اثاثوں کی تفصیل ایک ایفیڈیوٹ پر لیتی ہے ساتھ ہی امیدواروں کو نتیجہ آنے کے بعد 30 دنوں کے اندر ان کو تمام اخراجات کی تفصیل بھی جمع کرنی پڑتی ہے۔ انتخابی اخراجات میں کمی کرنے کے لیے کمیشن نے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کے ایام میں کمی کرتے ہوئے 21 دن سے 14 دن کر دیا۔ [22][23]انتخابات میں جرائم کو کم کرنے کے لیے کمیشن نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ جن امیدواروں پر جرم ثابت ہو گیا ہو ان پر زندگی بھر کی پابندی لگادی جائے۔ [24][25]

جدید کاری

الیکشن کمیشن نے انتخابی کارروائیوں کو مزید بہتر بنانے کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین متعارف کروایا۔ خیال تھا کہ اس کی مدد سے انتخابات میں بے ضابطگی اور بد عنوانی میں کمی آئے گی اور حسن کارکردگی میں اضافہ ہوگا۔ اس کا سب سے پہلا تجربہ کیرالا کے 1982ء کے اسمبلی انتخابات میں کیا گیا۔ اس کامیاب تجربہ اور قانونی چارہ جوئی کے بعد کمیشن نے ان مشینوں کے استعمال کا حتمی فیصلہ کیا۔[26] کمیشن نے درست معلومات مہیا کروانے، انتظام اور انتظامیہ کو سدھارنے اور انتخابات کے نتائج کے اعلان کے لیے 20 فروری 1998ء کو اپنی ویب سائٹ کا اجرا کیا۔ دھوکا دہی سے بچنے کے لیے کمیشن نے 1993 میں ووٹر آئی ڈی کارڈ جاری کیا جسے 2004 انتخابات سے لازمی قرار دیا گیا۔ حالانکہ کچھ انتخابات میں ووٹر آئی ڈی کارڈ کی جگہ راشن کارڈ کی بھی اجازت دی گئی۔[27] سنہ 1998ء میں ایک اجلاس میں کمیشن نے انتخابی کردار کو کمپیوٹرازڈ کرنے کا فیصلہ کیا۔ 2014ء کے عام انتخابات میں 8 انتخابی حلقوں میں ووٹر ویریفائڈ پیپر آڈٹ ٹرایل کو متعارف کروانا الیکشن کمیشن کی ایک اہم کامیابی تھی۔[28] اس مشین کا پہلی دفعہ استعمال ستمبر 2013ء کے ناگالینڈ کے ایک انتخابی حلقہ نوکسین کے وسط مدتی انتخاب میں کیا[29] اور تمام انتخابات میں سمتبر 2013ء میں ہی متعدد اسبملی انتخابات میں اس کا استعمال ہوا۔

سنہ 2014ء میں ان میں سے کوئی نہیں (نوٹا) متعارف کروایا گیا جو اب تمام ووٹنگ مشینوں میں لازمی طور پر موجود رہتا ہے۔[30][31]

NOTA symbol in India

In 2014, None of the above

نوٹا کے نشان کو نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزائی، احمدآباد نے ڈیزائن کیا۔[32][33]۔ بہار اسمبلی انتخابات، 2015 کے دوران میں بہار وہ پہلا صوبہ بنا جہاں تصویر والی ووٹنگ مشین استعمال ہوئی۔[34][35]

تنقید

بھارتی الیکشن کمیشن اس وقت تنقید کا نشانہ بنی جب ڈاکٹر ستیندر سنگھ نے قانون حق معلومات، 2005ء کو ایک درخواست دی جس میں معلوم ہوا کہ 2014 کے لوک سبھا انتخابات مین کمیشن نے کافی غیر ذمہدارانہ کردار ادا کیا ہے۔ [36]

2017 ھیکاتھون

3 جون 2017 کو دن کے 10 بجے الیکشن کمیشن نے مختلف انتخابات میں استعمال شدہ ووٹنگ مشین کو ہیک کرنے کے لیے ایک پروگرام( ھیکاتھون ) کا انعقاد کیا۔ [37][38] صرف راشٹروادی کانگریس پارٹی اور بھارتیہ مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی نے خود کو رجسٹر کروایا باقی جماعتوں نے دلچسپی نہیں دکھائی۔ مختلف ٹیموں کے ای وی ایم اور وی وی پیٹ کے فنکشن کا مظاہرہ کیا۔ [38]

مزید دیکھیے

  • بھارتی انتخابات
  • بھارتی چیف الیکشن کمشنر
  • بھارتی الیکشن کمشنر
  • انڈین انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈیموکریسی اینڈ الیکشن مینجمینٹ
  • بھارت میں قانون سازی

حوالہ جات

بیرونی روابط