اویغور نسل کشی

اویغورنسل کشی سے مراد انسانی حقوق کی وہ خلاف ورزیاں ہیں جس کا ارتکاب چین کی حکومت سنکیانگ میں اویغور باشندوں اور دیگر نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف کررہی ہے۔ 2014 سے چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کی زیر قیادت چینی حکومت نے سی سی پی کے جنرل سیکرٹری شی جن پنگ انتظامیہ کے دوران ایسی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے جس میں ایک اندازے کے مطابق 10 لاکھ سے زائد مسلمانوں (جن میں اکثریت اویغور ہیں) کو بغیر کسی قانونی کارروائی کے حراستی کیمپوں میں قید کر رکھا ہے۔ قانونی عمل [1] دوسری جنگ عظیم کے بعد نسلی اور مذہبی اقلیتوں کی یہ سب سے بڑی حراست ہے۔ ہزاروں مساجد کو تباہ یا نقصان پہنچایا گیا ہے اور لاکھوں بچوں کو زبردستی ان کے والدین سے جدا کر کے بورڈنگ اسکولوں میں بھیج دیا گیا ہے۔

حکومت کی پالیسیوں میں ریاست سے تصدیق شدہ حراستی کیمپوں میں اویغور باشندوں کی مانی حراست، جبری مشقت، اویغور مذہبی رسومات کی حوصلہ شکنی، سیاسی اعتقاد سازی، شدید ناروا سلوک، [2] جبری نس بندی، [3] جبری مانع حمل، [4] اور جبری اسقاط حمل وغیرہ شامل ہیں۔[5] چینی حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق 2015 سے 2018 تک ہوتان اور کاشغر کے زیادہ تر اویغور علاقوں میں شرح پیدائش میں 60 فیصد سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔ اسی عرصے میں پورے ملک میں شرح پیدائش 9.69 فیصد کم ہوئی، جو 12.07 سے 10.9 فی 1000 افراد پر آ گئی۔ [6] چینی حکام نے تسلیم کیا ہے کہ سنکیانگ میں 2018 میں شرح پیدائش تقریباً ایک تہائی کم ہوئی لیکن جبری نس بندی اور نسل کشی کی خبروں کی تردید کی۔ سنکیانگ میں شرح پیدائش 2019 میں مزید 24 فیصد گر گئی (ملک بھر میں 4.2 فیصد کی کمی کے مقابلے)۔ [3]

پہلے پہل توان اقدامات کو جبری انجذاب سنکیانگ اور نسلی ثقافتی نسل کشی کے طور پردیکھا گیا لیکن جب مزید تفصیلات سامنے آئیں تو کچھ حکومتوں، کارکنوں، آزاد این جی اوز، انسانی حقوق کے ماہرین اور ماہرین تعلیم نے اسے نسل کشی قرار دیا۔ [7] [8]

بین الاقوامی رد عمل مختلف ہے۔ اقوام متحدہ کے بعض رکن ممالک نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو چین کی پالیسیوں کی مذمت کرتے ہوئے بیانات جاری کیے جبکہ دیگر نے چین کی پالیسیوں کی حمایت کی۔ دسمبر 2020 میں بین الاقوامی فوجداری عدالت نے دائرہ اختیار کی بنیادوں پر چین کے خلاف تحقیقات کرنے سے انکار کر دیا۔ [9] ریاستہائے متحدہ پہلا ملک تھا جس نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو 19 جنوری 2021 کو اپنی تحقیقات کا اعلان کرتے ہوئے کیا نسل کشی قرار دیا۔ متعدد ممالک کی مقننہ نے چین کے اقدامات کو نسل کشی قرار دینے والی غیر پابند تجاویز منظور کی ہیں، جن میں کینیڈا کا ہاؤس آف کامنز، [10] ڈچ پارلیمنٹ ، برطانیہ کا ہاؤس آف کامنز [11] اور لیتھوانیا کا سیماس شامل ہیں۔ دیگر پارلیمانوں جیسے کہ نیوزی لینڈ ، بیلجیئم اور جمہوریہ چیک نے چینی حکومت کی طرف سے اویغوروں کے ساتھ سلوک کو "انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں" یا انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیتے ہوئے مذمت کی ۔

پس منظر

چین کے سنکیانگ کے شہر کاشغر سے تعلق رکھنے والا ایغور شخص۔

سنکیانگ تنازع

عوامی جمہوریہ چین (1949–)

سنکیانگ اور اس کی اندرونی اور بیرونی سرحدوں کا موجودہ دور کا نقشہ

حکومتی پالیسیاں

سنکیانگ پولیس میں سال کے حساب سے نوکریوں کے اشتہارات
سنکیانگ میں "دوبارہ تعلیم" سے متعلق سرکاری پروکیورمنٹ بولیوں کی تعداد

ثقافتی اثرات

ٹویوک میں مسجد، سنکیانگ (2005)

علما اور مذہبی شخصیات کی حراست

اویغور ماہر اقتصادیات الہام توہتی

لباس

سنکیانگ میں حجاب پہنے ایک اویغور خاتون

انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں

حراستی کیمپوں کے اندر

اذیت

مہری گل ترسن ، سنکیانگ کے حراستی کیمپوں کا ایک سابق زیر حراست

بدسلوکی کی درجہ بندی

چائنا کیبلز کے صفحات

بین الاقوامی رد عمل

غیر ملکی تنظیموں کے رد عمل

اقوام متحدہ میں رد عمل

مشرقی ترکستان کے جھنڈے کے ساتھ اقوام متحدہ میں مظاہرین

ملک کے لحاظ سے رد عمل

یورپ

نیدرلینڈز
ایمسٹرڈیم ، نیدرلینڈز میں 5 فروری 2011 کو اویغور نواز احتجاج

دوسرے رد عمل

احتجاج

25 ستمبر 2015 کو وائٹ ہاؤس کے قریب ایغور انسانی حقوق کا مظاہرہ

حوالہ جات