انصار عباسی

انصار عباسی (ولادت جون 12، 1965) پاکستانی اخبار دی نیوز انٹرنیشنل کے ایک تحقیقاتی مدیر ہیں۔ انھوں نے کئی خصوصی رپورٹوں کی اشاعت کی ہے۔[1]

انصار عباسی
انصار عباسی
معلومات شخصیت
پیدائشی نامانصار عباسی
پیدائش (1965-06-12) جون 12, 1965 (عمر 59 برس)
مری، پاکستان
قومیتپاکستانی
مذہباسلام
خانداندھند عباسی
عملی زندگی
تعليمصحافت و نشریات میں اعلٰی تعلیم
مادر علمیجامعہ بلوچستان   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہصحافی
پیشہ ورانہ زبانانگریزی ،  اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمتدی نیوز   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاںمدیر دی نیوز انٹرنیشنل

ابتدائی زندگی

عباسی کی پیدائش مری، پاکستان میں اس علاقے کے دھند عباسی خاندان میں ہوئی۔ ان کی ابتدائی تعلیم ان کے آبائی گاؤں میں ہوئی۔ انھوں نے میٹرک سرسید اسکول، راولپنڈی سے مکمل کیا۔ بعد میں وہ گورنمنٹ کالج اصغر مال میں شامل ہوئے۔ وہاں سے انھوں نے انٹرمیڈیٹ اور بی اے کی تعلیم حاصل کی۔ وہ اپنی ماسٹر کی ڈگری بلوچستان یونیورسٹی، کویٹہ سے پوری کیے۔ اس کے بعد انھوں نے ایک اورماسٹر کی ڈگری گولڈسمتھس کالج، یونیورسٹی آف لنڈن سے حاصل کیے۔[2] ان کا تحقیقی مقالے کا عنوان کم سنوں کی مزدوریآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ urdumania.net (Error: unknown archive URL) تھا۔[1]

آج انصار عباسی پاکستی صحافت کی ایک نامی شخصیت ہیں۔ وہ بالعموم انگریزی اخبارات کے لیے لکھتے ہیں۔ وہ محمد سجاول عباسی کے سب سے چھوٹے بیٹے ہیں جن کا انتقال 1981 میں ہوا۔ وہ خوبصورت مری پہاڑیوں کے چشم و چراغ ہیں۔[3]

عملی زندگی

صحافت میں اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1991 میں انصار صحافی بننا چاہتے تھے۔ وہ ابتدا میں روزنامہ جنگ سے جڑنا چاہتے تھے۔ مگر جیساکہ خود وہ حسن اتفاق تصور کرتے ہیں، انھیں پہلا موقع انگریزی روزنامہ دی ڈیموکریٹ میں ملا۔[4]۔ اس کے بعد وہ دو مہینے پاکستان ٹائمز کے لیے کام کیے۔ بالآخر وہ دی نیوز انٹرنیشنل سے جُڑے جس کے وہ اب مدیر ہیں۔ توہ انگریزی صحافت کو اردو پر ترجیح دیتے ہیں اور ان کے مطابق اردو صحافت بیانات کی صحافت سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔[4]

تحقیقاتی مضامین

منصف اعظم چودھری

عباسی ان اولین لوگوں میں سے ایک تھے جنھوں نے چیف جسٹس افتخار چودھری کے عہدے کے بے جا استعمال کے الزامات عائد کیے۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ چودھری کا بیٹا ڈاکٹر ارسلان وفافی تحقیقی ادارے میں تمام اہلیتی معیاروں کو نظر انداز کرکے شامل کیا گیا۔[5] اسی الزام کی بنیاد پر حکومت نے اعلٰی عدالتی کونسل میں چیف جسٹس افتخار چودھری کے خلاف تحریک پیش کی۔

پرویز مشرف

عباسی نے تحقیقی مضمون لکھا ہے جس کی رو سے پرویز مشرف نے چک شہزاد میں تمام سہولیات سے آراستہ مکان انتہائی کم قیمت پر بنوایا جبکہ اس کے پس پردہ حکومت کے اخراجات ان کی ادا شدہ رقم سے کہیں زیادہ ہیں۔[6]

منطقی قلابازی کرتے ہوئے ے عباسی نے سابق جنرل کی تنقید کی کہ انھوں نے افتخار چودھری کو ہٹایا اور ان کے معاملے کو اعلٰی عدالتی کونسل سے رجوع کیا۔[7]

مولانا فضل الرحمان

2008 میں عباسی نے ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی کہ کس طرح جمیعت علمائے اسلام کے رہنما فضل الرحمٰن اور ان کے اہل خانہ کو کروڑوں کی زمین پرویز مشرف حکومت کی جانب سے دی گئی تھی۔ عباسی کا دعوٰی ہے کہ اس وقت کے فوجی حکمران مولانا کو اپنے دو عہدوں پر فائز ہونے پر اعتراضات سے روکنے کے لیے، رشوت دی گئی تھی۔[8]

جسٹس ڈوگر

"ہماری مخصوص دختران" کے عنوان سے عباسی نے ڈیلی نیوز میں ایک رپورٹ چھاپی، جس سے پتہ چلا کہ جسٹس ڈوگر کی دختر فرح حمید ڈوگر کا ایف ایس سی کا امتحانی پرچہ عدالت علیا کے فیصلے کے برعکس دوبارا جانچا گیا۔[9] حالانکہ 201 امیدواروں کے امتحانی پرچوں پر نظرثانی کی گئی تھی، صرف اس ایک لڑکی کے امتحانی پرچے کونئے سرے سے جانچا گیا اور نمبرات کا اضافہ کیا گیا۔ باقی دوسو معاملوں میں صرف نشانات کے مجموعی نمبرات کی تصحیح کی گئی تھی۔[10] یہ معاملہ آگے چلکر پارلیمانی کمیٹی برائے تعلیم کے حوالے کیا گیا۔[11]

حوالہ جات