امتیاز علی عرشی

ساہتیہ اکادمی اعزاز یافتہ مصنف

امتیاز علی عرشی (پیدائش: 8 دسمبر 1904ء — وفات: 25 فروری 1981ء) ماہر غالبیات، محقق، مصنف اور مہتمم کتب خانہ رام پور تھے۔

امتیاز علی عرشی
(عربی میں: عرشي، امتياز علي، ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش8 دسمبر 1904ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رام پور   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات25 فروری 1981ء (77 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)[2]
ڈومنین بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمیپنجاب یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہمہتمم کتب خانہ ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زباناردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمترضا لائبریری، رام پور   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
ساہتیہ اکادمی ایوارڈ   (برائے:Diwan-i-Ghalib ) (1961)[3]  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

امتیاز علی عرشی 8 دسمبر 1904ء کو رام پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے آبا و اجداد حاجی خلیل قبائل (سوات) کے سردار تھے۔ جب ہجرت کرکے ہندوستان آئے تو رامپور کے آس پاس کے علاقوں پر قابض ہو گئے جو بعد میں نواب فیض اللہ خان کو سونپ دیے۔ مولانا ارشد کے والد وٹنری ڈاکٹر تھے جو ریاست رام پور کے ہسپتال کے انچارج تھے۔

امتیاز علی عرشی کی شادی 1933ء میں ہاجرہ بیگم سے ہوئی۔ ان سے سات بیٹے اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ امتیاز کی عمر ایک سال چھ ماہ کی تھی کہ ان کی والدہ کی وفات ہو گئی اور ان کی پرورش ان کی سوتیلی والدہ نے کی۔ امتیاز علی خان عرشی نے پانچ سال کی عمر میں حصولِ تعلیم کا آغاز کیا جو 1924ء تک جاری رہا۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد طرح طرح کی ملازمتیں کی۔آخر سب سے سبکدوش ہوکر رامپور کے ایک عظیم ادارے رضا لائبریری سے وابستہ رہے جہاں نادر و نایاب کتابوں کا ایک ذخیرہ اب بھی موجود ہے۔ اسی ذخیرے سے وہ خود فیض یاب ہوئے اور علمی دنیا کو اس سے فیض پہنچایا۔ ان کا اصل میدان عربی ادب تھا لیکن اردو میں بھی ان کے کارنامہ نہایت اہم ہیں۔

وفات

مولانا عرشی 25 فروری 1981ء کو 76 سال 2 ماہ 17 دن کی عمر پا کر رام پور میں انتقال کرگئے۔

حوالہ جات