اسلامی قرون وسطی میں ریاضی

اسلامی عہد زریں بالخصوص نویں اور دسویں صدی میں علم ریاضی کی بنیاد یونانی ریاضی (اقلیدس، ارشمیدس اور اپولنیس) اور ہندوستانی ریاضی (آریہ بھٹ اور برہمگپت) پر استوار کی گئی تھی۔ اس دور میں علم ریاضی نئے موضوعات سے روشناس ہوا مثلاً کسر کا مقام تاکہ اعداد کو کسور میں ظاہر کیا جا سکے۔ نیز پہلی مرتبہ الجبرا کا باضابطہ مطالعہ کیا گیا (اس ضمن میں الخوارزمی کی الکتاب المختصر فی حساب الجبر والمقابلۃ خاصی اہمیت کی حامل ہے)، اس کے علاوہ علم ہندسہ اور مثلثیات کو بھی خوب ترویج دی گئی۔[1]

الکتاب المختصر فی حساب الجبر والمقابلۃ کا ایک صفحہ الخوارزمی

بعد ازاں دسویں سے بارہویں صدی کے دوران میں علمِ ریاضی عالم اسلام سے یورپ منتقل ہوا اور یورپی محققین نے عہد اسلامی کی تحقیقات کی مدد سے اس علم کو فروغ دینے میں اپنی کوششیں صرف کیں۔[2]اسلام کی سائنسی تاریخ کے مشہور مؤرخ ڈاکٹر سیلی رجپ کے مطابق دسیوں ہزار عرب مخطوطات کا جو ریاضی اور فلسفہ سے متعلق تھے، ابھی تک مطالعہ نہیں کیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے ان علوم میں ہمارا انحصار معدودے چند عالموں اور مخطوطات تک محدود ہے۔[3]بقول علامہ اقبال:

مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی

جو دیکھے ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ

الجبرا

لفظ الجبرا بذات خود عربی سے ماخوذ ہے اس کے لفظی معنی تکمیل یا "ٹوٹے ہوئے حصوں کا اتحاد مکرر" ہے،[4] یہ علم اسلامی عہدِ زریں کے دوران میں فروغ پزیر ہوا۔ الخوارزمی جو بیت الحکمت بغداد کا محقق تھا اسے یونانی ریاضی دان دیوفانت کے ساتھ الجبرا کا باپ کہا جاتا ہے۔ کتاب الکتاب المختصر فی حساب الجبر والمقابلۃ میں الخوارزمی نے سب سے پہلے، مثبت جذر، سادہ اور دو درجی کثیر رقمی مساوات کے حل پیش کیے۔ اس نے تخفیف کا طریقہ کار متعارف کرایا اور دیوفانت کے برعکس، مساوات کے ساتھ عام مسائل کے حل فراہم کرتا ہے۔[5][6][7]

الخورازمی کا الجبرا لفاظانہ تھا، مطلب اس نے مساوات کو مکمل جملوں میں لکھا ہے۔ یہ یونانی ریاضی دان دیوفانت کے الجبرے پر کیے گئے کام کے برعکس تھا۔ جس نے اپنے الجبرے میں مختصر جملوں اور کم علامات کا استعمال کیا ہے۔ علامتی الجبرا، جس میں صرف علامتوں کا استعمال کیا جاتا ہے یہ چیز ابن البناء اور ابو الحسن ابن علی القلاصدی کے کام میں دیکھی جا سکتی ہے۔[7][8]

ترجمے و حواشی

مسلمانوں نے قدیم یونانی و ہندی کتابون کے ترجمے کیے اور ان پر حواشی لکھے اور ان کی شرحیں کیں۔

اقلیدس کے تراجم

اقلیدس کی ہندسی تالیف مبادیات کا عربی میں ترجمہ ہوا۔ اس کتاب کا دوسرا نام الأصول اور کتاب الأرکان بھی ہے ابن خلدون کے بیان کے مطابق مسائل کی شرح و بسط کے لحاظ سے یہ کتاب طلبہ کے لیے نہایت موزوں اور مناسب تھی۔ مختلف ترجموں کے لحاظ سے اس کے مختلف نسخے رائج ہیں۔منصور کے زمانے میں ہونے والا ترجمہ دست برد زمانے سے نہ بچ سکا۔ تاریخ بھی اس بارے میں خاموش ہے۔ اس کے بعد ترجمے ہوئے۔ ان کی سلاست اور روانی نے پہلے ترجموں کو مٹا ڈالا۔ ہارون الرشید کے دور (170ھ۔ 193ھ) میں حجاج بن مطر نے یحییٰ بن خالد برمکی کے ایما پر مبادیات کا دوسرا ترجمہ کیا اور مامون کے عہد (198ھ تاج 218ھ) میں تیسری بار ترجمہ اسی نے کیا۔ ابن ندیم لکھتا ہے۔

حجاج نے اقلیدس کے دو ترجمے کئے۔ ایک نقلِ ہارونی کے نام سے مشہور ہوا اور دوسرا ترجمہ نقلِ مامونی کے نام سے مشہور ہے اور اسی پر اعتماد کیا جاتا ہے۔

اقلیدس کا چوتھا ترجمہ اسحاق بن حنین (م 298ھ) نے کیا۔ اور مشہور مترجم ثابت بن قرہ نے اصلاح کی۔ ابن ندیم نے الفہرست میں اسحاق بن حنین کے ترجمے پر ثابت بن قرہ کی اصلاح کا ذِکر کیا ہے لیکن مستقل ترجمہ کا تذکرہ نہیں ہے۔ تاہم القفطی کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ثابت نے ترجمہ بھی کیا تھا۔ غرض کہ پانچواں ترجمہ ثابت بن قرہ نے کیا۔ ابن خلدون بھی اس کا ذکر کرتا ہے۔

فارسی تراجم

ساتویں صدی ہجری میں علامہ قطب الدین شیرازی710ھ) نے مبادیات کو فارسی میں منتقل کیا۔ دوسرا ترجمہ خیر اللہ مہندس ہندی کا ہے جو انھوں نے 1144ھ میں تقریر التحریر کے نام سے کیا۔

خیر اللہ انجینئر محمد شاہ اول (م 1748 / 1160ھ) کے زمانے میں معروف ہندوستانی ریاضی دان اور منجم تھا۔ راجہ دھیراج جے سنگھ والی جے پور نے رصد گاہ کی تعمیر کے لیے خیر اللہ ہی کو چُنا تھا۔ موصوف نے تقریر التحریر کے علاوہ 1161ھ میں اسی موضوع پر تقریب التحریر قلمبند کی۔

اقلیدس کے حواشی و شرحیں

سب سے پہلے فلسفی الکندی نے اس کی اصلاح رسالہ فی إصلاحح کتب اقلیدس اور رسالة في إصلاح المقالة الرابعة عشر والخامسة عشرین کتاب اقلیدس کے نام دو کتابیں لکھیں۔ کندی کے بعد ثابت بن قرہ نے کتاب فی اشکال اقلیدس لکھی۔

چوتھی صدی ہجری میں ابن الہیثم نے مبادیات کو خوبی سے ترتیب دیا۔ ابن الہیثم 354ھ (965ء) میں بصرہ میں پیدا ہوا تھا۔ بعد ازاں مصر میں سکونت اختیار کی اور وہیں 430ھ (1039ء) میں انتقال کیا۔ اس عظیم مفکر اور امام بصریات سے کم و بیش دو سو کتابیں منسوب ہیں۔ جن میں سے اکثر و بیشتر سائنسی اور ریاضیاتی موضوعات پر ہیں۔ ایک اہم تالیف رسالةخواص المثلث في جهت العمود ہے جو مشرق و مغرب سے خراج تحسین کر چکی ہے۔

ابو الوفا البوزجانی نے اقلیدس کی مبادیات کی شرح کا آغاز کیا تھا لیکن ابن ندیم کی تصریح کے مطابق اس کام کو عملی جامہ پہنا سکا۔ کشف الظنون کے مؤلف حاجی خلیفہ چلپی نے لکھا ہے کہ ابو الوفا نے تیرہ مقالوں میں ایک کتاب لکھی تھی۔ اسی طرح اس کے شاگرد نے استاد کے لیکچروں سے ایک کتاب مرتب کی تاہم یہ دونوں کتابیں ناپید ہیں۔ ابو الوفا البوزجانی 940ء میں پیدا ہوا اور 387ھ (998ء) میں بغداد میں فوت ہوا۔

بو علی سینا نے مبادیات کا اختصار کیا اور شفا کا ایک حصہ اس کے لیے مختص کیا اسی طرح ابن الصلت نے کتاب الاقتصار میں اس کا ملخص کیا ہے۔ ابن صلت (1112ء) میں تونس میں فوت ہوا۔

مندرجہ بالا اختصار اور تشریحات محقق نصیر الدین طوسی (م 672ھ) کی مرتب کردہ تحریرِ اقلیدس کے سامنے ہیچ ہیں۔ محقق طوسی 597ھ (1235ء) کو طوس میں پیدا ہوا۔ بغداد میں 672ھ کو فوت ہوا۔ محقق طوسی بیک وقت ریاضی دان، طبیب اور فلسفی تھا۔ اس نے 77 کتابیں تالیف کیں جو صدیاں گزرنے کے باوجود ایک دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈالے ہوئے ہیں۔

محقق طوسی نے ساتویں صدی ہجری کے وسط میں حجاج بن یوسف اور ثابت بن قرہ کے ترجموں سے مبادیات کا وہ ایڈیشن مرتب کیا جو آج مدارسِ عربیہ میں شامل نصاب ہے۔ مقدمہ میں رقمطراز ہے

جب میں المحبطی (فلکیات کی کتاب) کے ترجمہ سے فارغ ہوا تو میں نے مناسب سمجھا کہ اقلیدس کی مبادیات کو مرتب کروں ۔۔۔۔ اور اس میں ضروری اضافے کروں ۔۔۔۔ حجاج اور ثابت کے نسخوں میں جو اصل ترجمہ ہے اسے بعد کے اضافوں سے ممتاز کروں۔

ساتویں صدی ہجری ہی میں ایک اور ریاضی دان محی الدین یحییٰ بن ابی یشکر المغربی نے ایک کتاب تحریر اقلیدس۔ ۔۔۔ فی اشکال الہندسہ مرتب کی۔

مشہور ریاضی دان

نگارخانہ

مزید دیکھیے

  • عربی اعداد
  • اسلامی سائنس و ٹیکنالوجی کا خط زمانی
  • قرون وسطی میں اسلامی ریاضی پر ہندوستانی اثر
  • تاریخ علم الاحصا
  • تاریخ علم ہندسہ

ملاحظات

حوالہ جات

مزید پڑھیے

بیرونی روابط