ابن قدامہ

محدث

ابن قدامہ مقدسی حنبلی (عربی زبان: مؤفق الدین ابو محمد عبد اللہ بن احمد بن احمد بن محمد ابن قُدَامۃ المقدسی الحنبلی العدوي القرشي المقدسی الصالِحِیْ ) (پیدائش: 1147ء– وفات: 28 اکتوبر 1223ء) شیخ الاسلام، محدث، فقہ حنبلی کے عالم اور امام، فقیہ، قاضی اور مفکر تھے۔ فقہ حنبلی کے جدید فقہی مسائل پر بیشتر کتب تصنیف کیں اور امام ابن قدامہ حنابلہ کے عظیم ترین فقہا میں سے ایک ہیں۔ ابن قدامہ کی تصنیف کتاب المغنی فقہ حنبلی کی بنیادی کتب میں شمار کی جاتی ہے۔

شیخ   ویکی ڈیٹا پر (P511) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
امام ابن قُدَامہ المقدسی الحنبلی
(عربی میں: عبد الله بن أحمد بن قُدَّامة بن مقدام العدوي القرشي الجَمَّاعيلي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مسجد اموی، دمشق جہاں امام ابن قدامہ نے تعلیم حاصل کی اور نماز ادا کی۔

معلومات شخصیت
پیدائشسنہ 1147ء [1][2][3][4][5][6][7]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جمعان، نابلس، موجودہ فلسطین
وفاتہفتہ یکم شوال 620ھ/ 28 اکتوبر 1223ء
(عمر: 79 سال 2 ماہ قمری، 76 سال 10 ماہ شمسی)

بمقام دمشق، ایوبی سلطنت، موجودہ شام
فرقہسنی
فقہی مسلکحنبلی
عملی زندگی
استاذابن جوزی ،  شيخ عبدالقادر جيلانی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہمحدث ،  فقیہ ،  عالم   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبانعربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبانعربی [8]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عملفقہ ،  علم حدیث   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثراحمد بن حنبل، عبد القادر جيلانی، ابو الفرج ابن جوزی
متاثرابن رجب حنبلی
مسجد اموی، دمشق جہاں امام ابن قدامہ نے تعلیم حاصل کی اور نماز ادا کی

نام و نسب

امام ابن قدامہ کی کنیت ابو محمد ہے جبکہ نام عبد اللہ بن احمد بن محمد ہے۔ فقہ حنبلیہ سے نسبت کی وجہ سے الحنبلی کہلاتے ہیں۔ امام ابن قدامہ کا نسب یوں ہے :  مؤفقُ الدین أبو محمد عبد اللہ بن أحمد بن قُدَامۃ بن مقدام من ذرية سالم بن عمر بن الخطاب العدوي القرشي الحنبلی المقدسی الصالِحِیْ ہے۔[9]

ولادت

ابن قدامہ کی ولادت شعبان 541ھ/ جنوری 1147ء میں بمقام جماعیل میں ہوئی۔[9][10] جماعیل فلسطین کے شہر نابلس میں واقع ہے۔ ابن قدامہ کی ولادت خلیفہ عباسی المکتفی باللہ کے عہدِ خلافت میں ہوئی۔

حلیہ

امام ابن قدامہ کا حلیہ یوں تھا: طویل القامت، سفید رنگ، چہرے کی رنگت میں ایک نور سا چھلکتا ہوا، داڑھی طویل، کشادہ پیشانی، دراز انگلیاں، نرم ہاتھ اور نحیف الجسم۔[11][12]

ابتدائی حالات

551ھ/ 1156ء میں 10 سال کی عمر میں وہ دمشق چلے گئے، جب فلسطین میں فرنگیوں کا زور بڑھا تو ابن قدامہ کے والد اور دیگر اقرباء نے دمشق کو ہجرت کی، جہاں وہ پہلے باب شرقی کے باہر مسجد ابی صالح یعنی صالحیہ، دمشق آن کر ٹھہرے، لیکن کچھ مدت کے بعد انھوں نے جبل قاسیون میں مستقل اقامت اِختیار کرلی۔

تحصیل علم

560ھ/1165ء میں ابن قدامہ اپنے خالہ زاد بھائی محدث عبد الغنی بن عبد الواحد بن علی ابن سرور المقدسی (متوفی 600ھ/1203ء) کے ساتھ بغداد چلے گئے جہاں وہ 4 سال تک مقیم رہے۔ بغداد میں ابن قدامہ جن علمائے کرام سے اِستفادہ کرتے رہے وہ یہ ہیں :

بغداد میں قیام کے دوران میں ابن قدامہ محدثہ خواتین سے بھی حدیث کی تحصیل کرتے رہے جن میں مشہور محدثہ خواتین یہ ہیں :

567ھ/ 1172ء میں ابن قدامہ واپس بغداد لوٹ آئے اور ابو الفتح نصر بن فِتْیان بن مُطرّف بن المَنِیّ (متوفی 581ھ/ 1186ء) سے فقہ میں درس لیتے رہے۔ 573ھ/ 1177ء میں مکہ المکرمہ چلے گئے۔ 574ھ /1179ء میں حج ادا کیا اور مبارک بن علی بن الطبّاخ الحنبلی سے فقہ پڑھا۔ مبارک بن علی بن الطبّاخ الحنبلی وفات شوال المکرم 575ھ (مارچ 1179ء) کے بعد ابن قدامہ نے مکہ المکرمہ سے بغداد کا دوبارہ سفر اِختیار کیا۔ جہاں ابو الفتح نصر بن فِتْیان بن مُطرّف بن المَنِیّ کے درس میں پھر شامل ہو گئے۔ ایک سال بعد جب دمشق جانے کا عزم کیا تو ابن المَنِیّ نے کہا کہ یہیں رہو، کیونکہ بغداد کو تمھاری زیادہ ضرورت ہے، لیکن ابن قدامہ نہ رکے اور دمشق چلے گئے جہاں اپنی تصنیف المغنی کی تالیف میں مصروف ہو گئے۔ 607ھ/ 1210ء میں ابن قدامہ کے بھائی ابو عمر محمد بن احمد بن محمد بن قدامۃ کا اِنتقال ہو گیا تو ابن قدامہ جامع مظفری کے خطیب مقرر کردیے گئے۔ ابن قدامہ تفسیر، حدیث، فقہ کے علوم میں امام زمانہ تھے اور نحو، حساب اور علم نجوم میں بھی دسترس رکھتے تھے۔[13][14][15][16][17][18]

وفات

عین روزِ عید الفطر ہفتہ یکم شوال المکرم 620ھ/28 اکتوبر 1223ء کو 79 سال 2 ماہ قمری کی عمر میں دمشق، شام میں اِنتقال کیا۔ نمازِ جنازہ جل قاسیون میں پڑھائی گئی اور قبرستانِ جبل قاسیون میں تدفین کی گئی۔ نمازِ جنازہ میں خلقتِ کثیر نے شرکت کی۔[9][9][19] محمد بن عبد الرحمن العلوی سے روایت ہے کہ: ہم جبل بن ھلال میں تھے کہ ناگہاں دیکھا کہ قاسیون (یعنی جبل قاسیون) میں روشنی ہو رہی ہے، ہم یہ سمجھے کہ دمشق میں آگ لگ گئی ہے۔ بعد کو معلوم ہوا کہ موفق الدین ابن قدامہ فوت ہو گئے۔[19] سبط ابن جوزی کی مرآۃ الزماں میں ابن قدامہ کی کئی کرامات کا ذکر بھی ملتا ہے۔

اولاد

ابن قدامہ کے تین بیٹے تھے: محمد، یحییٰ اور عیسیٰ۔ یہ تینوں بیٹے اِن کی زندگی میں ہی فوت ہو گئے تھے۔ عیسیٰ جوان ہوئے اور اُن کی شادی ہوئی، 2 بیٹے ہوئے جو لاولد فوت ہوئے، بعد ازاں عیسیٰ خود بھی فوت ہوئے۔ عیسیٰ کی وفات کے بعد ابن قدامہ کی اولاد کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔[20][21]

مشاہیر کی نظر میں

  • مفتی بغداد ابوبکر بن غُنَیمَۃ کہتے ہیں کہ: میں نے اپنے اِس زمانہ میں کوئی ایسا نہیں دیکھا جو اجتہاد کے اِدراک سے واقف ہو، سوائے شیخ موفق ابن قدامہ کے ۔[11][12]
    • مفتی ابو عمر بن الصلاح کہتے ہیں کہ: میں نے شیخ موفق ابن قدامہ جیسا کوئی نہیں دیکھا۔[11][12]
    • سبط ابن جوزی کہتے ہیں کہ: وہ فنون کثیرہ میں امام تھے، اپنے زمانہ میں اُن جیسا کوئی نہ ہوا۔ حیاء دار متواضع، مساکین سے محبت کرنے والے، حسن اخلاق والے، سخی تھے۔ اکثر لوگوں سے سنا گیا ہے جنھوں نے انھیں دیکھا ہے کہ: شیخ ابن قدامہ کے چہرہ سے ایک نور چھلکتا تھا۔ شیخ کثیرالعبادت تھے، شب و روز میں قرآن کی تلاوت بکثرت کیا کرتے۔ نوافل نماز کی ادائیگی کے شدت سے پابند تھے۔ جامع دمشق اور جامع قاسیون میں اُن کی مجالس واعظ میں بکثرت لوگ شرکت کیا کرتے تھے۔[22]
    • ابو شامۃ کہتے ہیں کہ: مؤفق الدین شیخ حنابلہ تھے، وہ ائمہ مسلمین میں سے ایک امام تھے۔ علم و عمل میں اپنے زمانے کے عالم با عمل تھے۔ انھوں نے متعددا کتب تصنیف کرکے فقہ پر احسان کیا ہے۔ وہ اخبار و آثار کے معانی و مطالب سے واقف تھے۔[22]
    • شیخ الاسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ: بلاد الشام میں امام اوزاعی کے بعد کوئی فقیہ داخل نہیں ہوا، سوائے شیخ مؤفق کے ۔[22]
    • امام عماد الدین ابو اسحاق ابراہیم بن عبد الواحد ابن سرور المقدسی (متوفی 614ھ) کہتے ہیں کہ: شیخ مؤفق کی تعظیم اُن کے اپنے زمانہ میں بکثرت کی جاتی تھی، اُن سے بڑا عالم اُن کے زمانے میں اور کوئی نہ تھا۔[22]
    علامہ مؤرخ اسلام ابن کثیر الدمشقی (متوفی 774ھ/ 1373ء) نے لکھا ہے کہ: آپ کے زمانہ میں اور آپ سے قبل زمانہ میں بھی آپ سے بڑا فقیہ کوئی نہیں تھا۔[9]

    تصانیف

    ابن قدامہ کی تالیفات کی تعداد 25 سے زائد ہے۔[23]

    • عمدة الفقہ
    • المقنع
    • الکافی فی فقہ الامام احمد بن حنبل
    • کتاب المغنی
    • الاستبصار : فی الانساب
    • لاعتقاد
    • ذم التأويل
    • ذم الوسواس
    • روضة الناظر وجنة المناظر
    • فضائل الصحابة
    • القدر
    • مسألة فی تحريم النظر في علم الكلام
    • مناسک الحج
    • التبيين فی أنساب القرشيين
    • تحريم النظر فی كتب أهل الكتاب
    • البرهان فی مسألة القرآن
    • مختصر منہاج القاصدین
    • ذم ما عليہ مدعو التصوف
    • رسالة إلى فخر الدين ابن تيمية فی عدم تخليد أهل البدع فی النار
    • كتاب التوابين
    • اثبات صفة العلو
    • الشرح الكبير على المقنع
    • لمعة الاعتقاد
    • الرقة والبكاء
    • فضائل عاشوراء
    • فضائل العشر
    • الفوائد
    • قنعة الأريب فی الغريب
    • المتحابين فی اللہ
    • مختصر علل الحديث
    • مختصر الهداية
    • مشيخة شيوخہ
    • الكفر والتوحيد
    • الوصية
    • کتاب المغنی کو ناشر محمد رشید رضا مصری نے قاہرہ مصر سے 1341ھ میں شائع کیا، بعد ازاں 1348ھ میں اِس کی 12 جلدیں شائع ہوئیں۔ کتاب المغنی کے تعارف میں محمد رشید رضا مصری نے شیخ عزالدین بن عبد السَّلام کی رائے کو دہرایا ہے اور مزید اِس رائے کی تائید بھی کی ہے کہ : " فقہ اسلامی کی جملہ کتب میں سے ابن حزم کی المحلی اور موفق الدین ابن قدامہ کی المغنی سب سے افضل ہے۔ "

    حوالہ جات